aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
تلاش کا نتیجہ "صبا"
صبا اکبرآبادی
1908 - 1991
شاعر
جاوید صبا
born.1958
صبا افغانی
1922 - 1976
وزیر علی صبا لکھنؤی
1793 - 1855
صبیحہ صبا
سبط علی صبا
1935 - 1980
born.1950
رشمی صبا
پروین صبا
مصنف
لالہ کانجی مل صبا
born.1792
شیاما سنگھ صبا
born.1951
کامران غنی صبا
born.1989
صبا تابش
born.1999
صبا اکرام
born.1945
علیم صبا نویدی
born.1942
اس کی یاد کی باد صبا میں اور تو کیا ہوتا ہوگایوں ہی میرے بال ہیں بکھرے اور بکھر جاتے ہوں گے
قفس اداس ہے یارو صبا سے کچھ تو کہوکہیں تو بہر خدا آج ذکر یار چلے
پھر صبا سایۂ شاخ گل کے تلےکوئی قصہ سناتی رہی رات بھر
ایک ہی مژدہ صبح لاتی ہےدھوپ آنگن میں پھیل جاتی ہے
میں تو گم تھا تیرے ہی دھیان میں تری آس تیرے گمان میںصبا کہہ گئی مرے کان میں مرے ساتھ آ اسے بھول جا
نام خواجہ محمد امیر، تخلص صباؔ ۔۱۴؍اگست۱۹۰۸ ء کو آگرہ میں پیدا ہوئے۔ شاعری کا آغاز ۱۹۲۰ء سے ہوا اور اپنے عربی فارسی کے استاد اخضر اکبرآبادی کی شاگردی اختیار کی۔ ۱۹۳۰ء میں محکمہ تعلیم میں بطور کلرک ملازم ہوگئے۔ بعدازاں متعدد تجارتی اور کاروباری اداروں سے منسلک رہے۔ تقسیم ہندکے بعد پاکستان آگئے اور کراچی میں بودوباش اختیار کی۔۱۹۶۱ء میں تقریباً ایک برس محترمہ فاطمہ جناح کے پرائیوٹ سکریٹری رہے۔ بھر جناح کالج اور دوسرے تعلیمی اداروں میں ۱۹۷۳ء تک کام کرتے رہے۔ غزل، رباعی، نظم ، مرثیہ ہرصنف سخن میں طبع آزمائی کی۔ وہ ایک قادر الکلام شاعر تھے۔ ان کے مجموعہ ہائے کلام’’اوراق گل‘‘ اور ’’چراغ بہار‘‘ کے نام سے شائع ہوچکے ہیں۔ انھوں نے پورے دیوان غالب کی تضمین کے علاوہ عمر خیام کی کوئی بارہ سو رباعیات کو اردو رباعی میں ترجمہ کیا ہے جس کا ایک مختصر انتخاب ’دست زرفشاں‘ کے نام سے شائع ہوگیا ہے۔ صبا صاحب کے ترجمے کی دوسری کتاب’’ہم کلام‘‘ ہے جس میں غالب کی رباعیات کا ترجمہ پیش کیا گیا ہے ۔ ان کی مرثیوں کی تین کتابیں ’سربکف‘، ’شہادت‘اور ’خوناب‘ کے نام سے شائع ہوچکی ہیں۔ صبا اکبرآبادی ۲۹؍اکتوبر۱۹۹۱ء کو اسلام آباد میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔
وزیر علی صبا لکھنؤی تقریباً ۱۸۵۰ء میں لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔ آتش کے شاگرد تھے۔ دو سو روپیہ واجد علی شاہ کی سرکار سے اور تیس روپیہ ماہوار نواب محسن الدولہ کے یہاں سے ملتا تھا۔ افیون کے بہت شوقین تھے۔ جو شخص ان سے ملنے جاتا اس کی تواضع منجملہ دیگر تکلفات افیون سے بھی ضرور کرتے۔ ۱۳؍جون ۱۸۵۵ء کو لکھنؤ میں گھوڑے سے گرکر انتقال ہوا۔ ایک ضخیم دیوان’’غنچۂ آرزو‘‘ ان کی یادگار ہے۔
شاعری میں صبر عاشق کا صبر ہے جو طویل ہجر کو وصال کی ایک موہوم سی امید پر گزار رہا ہوتا ہے اور معشوق اس کے صبر کا برابر امتحان لیتا رہتا ہے ۔ یہ اشعار عاشق اور معشوق کے کردار کی دلچسپ جہتوں کا اظہاریہ ہیں ۔
सबाصبا
a gentle breeze, / zephyr
हवा, सुबह की हवा
دست صبا
فیض احمد فیض
مجموعہ
باد صبا کا انتظار
سید محمد اشرف
افسانہ
اردو نظم کے سلسلے
نظم
پاکستان میں اردو شاعری
تنقید
چشم ستارہ شمار
ریاض الانساب
سید محمود علی صبا
خود نوشت
عرش غزل
کلیات
جہان اردو رباعی
میرے حصے کی روشنی
رنگ روپ
جدید افسانہ: چند صورتیں
فکشن تنقید
ہم کلام
رباعی
طشت مراد
چمن پہ غارت گلچیں سے جانے کیا گزریقفس سے آج صبا بے قرار گزری ہے
زندگی کے سفر میں بہت دور تک جب کوئی دوست آیا نہ ہم کو نظرہم نے گھبرا کے تنہائیوں سے صباؔ ایک دشمن کو خود ہم سفر کر لیا
چلے جو یار تو دامن پہ کتنے ہاتھ پڑےدیار حسن کی بے صبر خواب گاہوں سے
جب تجھے یاد کر لیا صبح مہک مہک اٹھیجب ترا غم جگا لیا رات مچل مچل گئی
حضرت زلف غالیہ افشاںنام اپنا صبا صبا کیجے
اے مرے صبح و شام دل کی شفقتو نہاتی ہے اب بھی بان میں کیا
کہاں کا صبر کہ دم پر ہے بن گئی ظالمبہ تنگ آئے تو حال دل آشکار کیا
اپنے جلنے میں کسی کو نہیں کرتے ہیں شریکرات ہو جائے تو ہم شمع بجھا دیتے ہیں
صبا سے کرتے ہیں غربت نصیب ذکر وطنتو چشم صبح میں آنسو ابھرنے لگتے ہیں
صبا پھر ہمیں پوچھتی پھر رہی ہےچمن کو سجانے کے دن آ رہے ہیں
Devoted to the preservation & promotion of Urdu
A Trilingual Treasure of Urdu Words
Online Treasure of Sufi and Sant Poetry
World of Hindi language and literature
The best way to learn Urdu online
Best of Urdu & Hindi Books