چارہ گر پر اشعار

کلاسیکی شاعری میں موجود

عشق کی کہانی میں جو چند بنیادی کردارہیں ان میں ایک چارہ گر بھی ہے۔ ہجرکی تکلیفوں ، دربدری اورصحرانوردی کی مصیبتوں میں جوایک آخری سہارا ہوتا ہے وہ چارہ گرکا ہی ہوتا ہے ۔ چارہ گرایک بہت سیدھا سادا کردارہے وہ عشق کے آزار کی نوعیت سے واقف نہیں ہوتا اورعاشق کے دکھ درد کا علاج اپنے عام نسخوں اورترکیبوں سے کرنا چاہتا ہے لیکن عاشق اچھا نہیں ہوتا ۔ اس مقام پرعاشق اورچارہ گرکے درمیان کا مکالمہ ایک الگ ہی لطف رکھتا ہے ۔

مجھے چھوڑ دے میرے حال پر ترا کیا بھروسہ ہے چارہ گر

یہ تری نوازش مختصر میرا درد اور بڑھا نہ دے

شکیل بدایونی

کس سے امید کریں کوئی علاج دل کی

چارہ گر بھی تو بہت درد کا مارا نکلا

لطف الرحمن

وہ دل نواز ہے لیکن نظر شناس نہیں

مرا علاج مرے چارہ گر کے پاس نہیں

ناصر کاظمی

گویا تمہاری یاد ہی میرا علاج ہے

ہوتا ہے پہروں ذکر تمہارا طبیب سے

آغا حشر کاشمیری

کس سے جا کر مانگیے درد محبت کی دوا

چارہ گر اب خود ہی بے چارے نظر آنے لگے

شکیل بدایونی

کوئی دوا نہ دے سکے مشورۂ دعا دیا

چارہ گروں نے اور بھی درد دل کا بڑھا دیا

حفیظ جالندھری

اک یہ بھی تو انداز علاج غم جاں ہے

اے چارہ گرو درد بڑھا کیوں نہیں دیتے

احمد فراز

اس مرض سے کوئی بچا بھی ہے

چارہ گر عشق کی دوا بھی ہے

نامعلوم

چارہ گری کی بات کسی اور سے کرو

اب ہو گئے ہیں یارو پرانے مریض ہم

شجاع خاور

اب مرا درد مری جان ہوا جاتا ہے

اے مرے چارہ گرو اب مجھے اچھا نہ کرو

شہزاد احمد

اے مرے چارہ گر ترے بس میں نہیں معاملہ

صورت حال کے لیے واقف حال چاہئے

سلیم کوثر

کبھی جو زحمت کار رفو نہیں کرتا

ہمارے زخم اسی چارہ گر کے نام تمام

عرفان صدیقی

نئی نہیں ہے یہ تنہائی میرے حجرے کی

مرض ہو کوئی بھی ہے چارہ گر سے ڈر جانا

وجے شرما

طبیبوں کی توجہ سے مرض ہونے لگا دونا

دوا اس درد کی بتلا دل آگاہ کیا کیجے

شیخ ظہور الدین حاتم

خبر ہے کوئی چارہ گر آئے گا

سلیقے سے بیٹھے ہیں بیمار سب

عقیل نعمانی

Jashn-e-Rekhta | 2-3-4 December 2022 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate, New Delhi

GET YOUR FREE PASS
بولیے