Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Muneer Niyazi's Photo'

منیر نیازی

1928 - 2006 | لاہور, پاکستان

پاکستان کے ممتاز ترین جدید شاعروں میں شامل۔ فلموں کے لئے گیت بھی لکھے

پاکستان کے ممتاز ترین جدید شاعروں میں شامل۔ فلموں کے لئے گیت بھی لکھے

منیر نیازی کے اشعار

75.2K
Favorite

باعتبار

کوئی تو ہے منیرؔ جسے فکر ہے مری

یہ جان کر عجیب سی حیرت ہوئی مجھے

غیر سے نفعت جو پا لی خرچ خود پر ہو گئی

جتنے ہم تھے ہم نے خود کو اس سے آدھا کر لیا

لیے پھرا جو مجھے در بہ در زمانے میں

خیال تجھ کو دل بے قرار کس کا تھا

منیرؔ اس خوب صورت زندگی کو

ہمیشہ ایک سا ہونا نہیں ہے

میں اس کو دیکھ کے چپ تھا اسی کی شادی میں

مزا تو سارا اسی رسم کے نباہ میں تھا

وہ جس کو میں سمجھتا رہا کامیاب دن

وہ دن تھا میری عمر کا سب سے خراب دن

تم میرے لیے اتنے پریشان سے کیوں ہو

میں ڈوب بھی جاتا تو کہیں اور ابھرتا

جب سفر سے لوٹ کر آئے تو کتنا دکھ ہوا

اس پرانے بام پر وہ صورت زیبا نہ تھی

اچھی مثال بنتیں ظاہر اگر وہ ہوتیں

ان نیکیوں کو ہم تو دریا میں ڈال آئے

شہر کا تبدیل ہونا شاد رہنا اور اداس

رونقیں جتنی یہاں ہیں عورتوں کے دم سے ہیں

کیوں منیرؔ اپنی تباہی کا یہ کیسا شکوہ

جتنا تقدیر میں لکھا ہے ادا ہوتا ہے

محبت اب نہیں ہوگی یہ کچھ دن بعد میں ہوگی

گزر جائیں گے جب یہ دن یہ ان کی یاد میں ہوگی

مرے پاس ایسا طلسم ہے جو کئی زمانوں کا اسم ہے

اسے جب بھی سوچا بلا لیا اسے جو بھی چاہا بنا دیا

ہم بھی منیرؔ اب دنیا داری کر کے وقت گزاریں گے

ہوتے ہوتے جینے کے بھی لاکھ بہانے آ جاتے ہیں

دن بھر جو سورج کے ڈر سے گلیوں میں چھپ رہتے ہیں

شام آتے ہی آنکھوں میں وہ رنگ پرانے آ جاتے ہیں

غم کی بارش نے بھی تیرے نقش کو دھویا نہیں

تو نے مجھ کو کھو دیا میں نے تجھے کھویا نہیں

نیند کا ہلکا گلابی سا خمار آنکھوں میں تھا

یوں لگا جیسے وہ شب کو دیر تک سویا نہیں

جانتا ہوں ایک ایسے شخص کو میں بھی منیرؔ

غم سے پتھر ہو گیا لیکن کبھی رویا نہیں

جرم آدم نے کیا اور نسل آدم کو سزا

کاٹتا ہوں زندگی بھر میں نے جو بویا نہیں

دشت باراں کی ہوا سے پھر ہرا سا ہو گیا

میں فقط خوشبو سے اس کی تازہ دم سا ہو گیا

کسی کو اپنے عمل کا حساب کیا دیتے

سوال سارے غلط تھے جواب کیا دیتے

خواہشیں ہیں گھر سے باہر دور جانے کی بہت

شوق لیکن دل میں واپس لوٹ کر آنے کا تھا

اپنے گھروں سے دور بنوں میں پھرتے ہوئے آوارہ لوگو

کبھی کبھی جب وقت ملے تو اپنے گھر بھی جاتے رہنا

خوشبو کی دیوار کے پیچھے کیسے کیسے رنگ جمے ہیں

جب تک دن کا سورج آئے اس کا کھوج لگاتے رہنا

اس حسن کا شیوہ ہے جب عشق نظر آئے

پردے میں چلے جانا شرمائے ہوئے رہنا

بے چین بہت پھرنا گھبرائے ہوئے رہنا

اک آگ سی جذبوں کی دہکائے ہوئے رہنا

عادت ہی بنا لی ہے تم نے تو منیرؔ اپنی

جس شہر میں بھی رہنا اکتائے ہوئے رہنا

پوچھتے ہیں کہ کیا ہوا دل کو

حسن والوں کی سادگی نہ گئی

کھڑا ہوں زیر فلک گنبد صدا میں منیرؔ

کہ جیسے ہاتھ اٹھا ہو کوئی دعا کے لیے

جانتے تھے دونوں ہم اس کو نبھا سکتے نہیں

اس نے وعدہ کر لیا میں نے بھی وعدہ کر لیا

قبائے زرد پہن کر وہ بزم میں آیا

گل حنا کو ہتھیلی میں تھام کر بیٹھا

زندہ رہیں تو کیا ہے جو مر جائیں ہم تو کیا

دنیا سے خامشی سے گزر جائیں ہم تو کیا

دل کی خلش تو ساتھ رہے گی تمام عمر

دریائے غم کے پار اتر جائیں ہم تو کیا

ہستی ہی اپنی کیا ہے زمانے کے سامنے

اک خواب ہیں جہاں میں بکھر جائیں ہم تو کیا

اب کون منتظر ہے ہمارے لیے وہاں

شام آ گئی ہے لوٹ کے گھر جائیں ہم تو کیا

میں خوش نہیں ہوں بہت دور اس سے ہونے پر

جو میں نہیں تھا تو اس پر شباب کیوں آیا

زوال عصر ہے کوفے میں اور گداگر ہیں

کھلا نہیں کوئی در باب التجا کے سوا

مکان زر لب گویا حد سپہر و زمیں

دکھائی دیتا ہے سب کچھ یہاں خدا کے سوا

تنہا اجاڑ برجوں میں پھرتا ہے تو منیرؔ

وہ زرفشانیاں ترے رخ کی کدھر گئیں

سن بستیوں کا حال جو حد سے گزر گئیں

ان امتوں کا ذکر جو رستوں میں مر گئیں

امتحاں ہم نے دیئے اس دار فانی میں بہت

رنج کھینچے ہم نے اپنی لا مکانی میں بہت

کوئلیں کوکیں بہت دیوار گلشن کی طرف

چاند دمکا حوض کے شفاف پانی میں بہت

کل میں نے اس کو دیکھا تو دیکھا نہیں گیا

مجھ سے بچھڑ کے وہ بھی بہت غم سے چور تھا

رویا تھا کون کون مجھے کچھ خبر نہیں

میں اس گھڑی وطن سے کئی میل دور تھا

مہک عجب سی ہو گئی پڑے پڑے صندوق میں

رنگت پھیکی پڑ گئی ریشم کے رومال کی

ایسا سفر ہے جس کی کوئی انتہا نہیں

ایسا مکاں ہے جس میں کوئی ہم نفس نہیں

شہر کی گلیوں میں گہری تیرگی گریاں رہی

رات بادل اس طرح آئے کہ میں تو ڈر گیا

وہ جو میرے پاس سے ہو کر کسی کے گھر گیا

ریشمی ملبوس کی خوشبو سے جادو کر گیا

صبح کاذب کی ہوا میں درد تھا کتنا منیرؔ

ریل کی سیٹی بجی تو دل لہو سے بھر گیا

کچھ وقت چاہتے تھے کہ سوچیں ترے لیے

تو نے وہ وقت ہم کو زمانے نہیں دیا

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے