Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Zehra Nigaah's Photo'

زہرا نگاہ

1936 | کراچی, پاکستان

پاکستان کی ممتاز ترین شاعرات میں نمایاں

پاکستان کی ممتاز ترین شاعرات میں نمایاں

زہرا نگاہ کے اشعار

31.4K
Favorite

باعتبار

اٹھو کہ جشن خزاں ہم منائیں جی بھر کے

بہار آئے گلستاں میں کب خدا جانے

وحشت میں بھی منت کش صحرا نہیں ہوتے

کچھ لوگ بکھر کر بھی تماشا نہیں ہوتے

وہ ساتھ نہ دیتا تو وہ داد نہ دیتا تو

یہ لکھنے لکھانے کا جو بھی ہے خلل جاتا

اس شہر کو راس آئی ہم جیسوں کی گم نامی

ہم نام بتاتے تو یہ شہر بھی جل جاتا

وہ نہ جانے کیا سمجھا ذکر موسموں کا تھا

میں نے جانے کیا سوچا بات رنگ و بو کی تھی

برسوں ہوئے تم کہیں نہیں ہو

آج ایسا لگا یہیں کہیں ہو

اپنا ہر انداز آنکھوں کو تر و تازہ لگا

کتنے دن کے بعد مجھ کو آئینہ اچھا لگا

میں تو اپنے آپ کو اس دن بہت اچھی لگی

وہ جو تھک کر دیر سے آیا اسے کیسا لگا

جو دل نے کہی لب پہ کہاں آئی ہے دیکھو

اب محفل یاراں میں بھی تنہائی ہے دیکھو

غم اپنے ہی اشکوں کا خریدا ہوا ہے

دل اپنی ہی حالت کا تماشائی ہے دیکھو

ہم سے بڑھی مسافت دشت وفا کہ ہم

خود ہی بھٹک گئے جو کبھی راستہ ملا

تاروں کو گردشیں ملیں ذروں کو تابشیں

اے رہ نورد راہ جنوں تجھ کو کیا ملا

دیکھتے دیکھتے اک گھر کے رہنے والے

اپنے اپنے خانوں میں بٹ جاتے ہیں

اس امید پہ روز چراغ جلاتے ہیں

آنے والے برسوں بعد بھی آتے ہیں

دیکھو تو لگتا ہے جیسے دیکھا تھا

سوچو تو پھر نام نہیں یاد آتے ہیں

کوئی ہنگامہ سر بزم اٹھایا جائے

کچھ کیا جائے چراغوں کو بجھایا جائے

بھولنا خود کو تو آساں ہے بھلا بیٹھا ہوں

وہ ستم گر جو نہ بھولے سے بھلایا جائے

اب بھی کچھ لوگ سناتے ہیں سنائے ہوئے شعر

باتیں اب بھی تری ذہنوں میں بسی لگتی ہیں

ساعتیں جو تری قربت میں گراں گزری تھیں

دور سے دیکھوں تو اب وہ بھی بھلی لگتی ہیں

اب اس گھر کی آبادی مہمانوں پر ہے

کوئی آ جائے تو وقت گزر جاتا ہے

شام ڈھلے آہٹ کی کرنیں پھوٹی تھیں

سورج ڈوب کے میرے گھر میں نکلا تھا

رک جا ہجوم گل کہ ابھی حوصلہ نہیں

دل سے خیال تنگی داماں گیا نہیں

رات عجب آسیب زدہ سا موسم تھا

اپنا ہونا اور نہ ہونا مبہم تھا

روشنیاں اطراف میں زہراؔ روشن تھیں

آئینے میں عکس ہی تیرا مدھم تھا

دل بجھنے لگا آتش رخسار کے ہوتے

تنہا نظر آتے ہیں غم یار کے ہوتے

جینا ہے تو جی لیں گے بہر طور دوانے

کس بات کا غم ہے رسن و دار کے ہوتے

جو سن سکو تو یہ سب داستاں تمہاری ہے

ہزار بار جتایا مگر نہیں مانے

زمیں پر گر رہے تھے چاند تارے جلدی جلدی

اندھیرا گھر کی دیواروں سے اونچا ہو رہا تھا

بہت دن بعد زہراؔ تو نے کچھ غزلیں تو لکھیں

نہ لکھنے کا کسی سے کیا کوئی وعدہ کیا تھا

ایک تیرا غم جس کو راہ معتبر جانیں

اس سفر میں ہم کس کو اپنا ہم سفر جانیں

بستی میں کچھ لوگ نرالے اب بھی ہیں

دیکھو خالی دامن والے اب بھی ہیں

دیکھو وہ بھی ہیں جو سب کہہ سکتے تھے

دیکھو ان کے منہ پر تالے اب بھی ہیں

لو ڈوبتوں نے دیکھ لیا ناخدا کو آج

تقریب کچھ تو بہر ملاقات ہو گئی

مئے حیات میں شامل ہے تلخیٔ دوراں

جبھی تو پی کے ترستے ہیں بے خودی کے لئے

کہاں کے عشق و محبت کدھر کے ہجر و وصال

ابھی تو لوگ ترستے ہیں زندگی کے لئے

نہیں نہیں ہمیں اب تیری جستجو بھی نہیں

تجھے بھی بھول گئے ہم تری خوشی کے لئے

صلح جس سے رہی میری تا زندگی

اس کا سارے زمانے سے جھگڑا سا تھا

دیر تک روشنی رہی کل رات

میں نے اوڑھی تھی چاندنی کل رات

دیوانوں کو اب وسعت صحرا نہیں درکار

وحشت کے لیے سایۂ دیوار بہت ہے

یہ اداسی یہ پھیلتے سائے

ہم تجھے یاد کر کے پچھتائے

ہم جو پہنچے تو رہ گزر ہی نہ تھی

تم جو آئے تو منزلیں لائے

شب بھر کا ترا جاگنا اچھا نہیں زہراؔ

پھر دن کا کوئی کام بھی پورا نہیں ہوتا

عورت کے خدا دو ہیں حقیقی و مجازی

پر اس کے لیے کوئی بھی اچھا نہیں ہوتا

نقش کی طرح ابھرنا بھی تمہی سے سیکھا

رفتہ رفتہ نظر آنا بھی تمہی سے سیکھا

چھوٹی سی بات پہ خوش ہونا مجھے آتا تھا

پر بڑی بات پہ چپ رہنا تمہی سے سیکھا

تم سے حاصل ہوا اک گہرے سمندر کا سکوت

اور ہر موج سے لڑنا بھی تمہی سے سیکھا

ایک کے گھر کی خدمت کی اور ایک کے دل سے محبت کی

دونوں فرض نبھا کر اس نے ساری عمر عبادت کی

جن باتوں کو سننا تک بار خاطر تھا

آج انہیں باتوں سے دل بہلائے ہوئے ہوں

گردش مینا و جام دیکھیے کب تک رہے

ہم پہ تقاضائے حرام دیکھیے کب تک رہے

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے