Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
noImage

نامعلوم

نامعلوم کے اشعار

144.9K
Favorite

باعتبار

ہمیں بھی جلوہ گاہ ناز تک لیتے چلو موسیٰ

تمہیں غش آ گیا تو حسن جاناں کون دیکھے گا

خدا کے واسطے مہر سکوت توڑ بھی دے

تمام شہر تری گفتگو کا پیاسا ہے

خوف دوزخ سے کبھی خواہش جنت سے کبھی

مجھ کو اس طرز عبادت پہ ہنسی آتی ہے

آپ کیوں رہتے ہیں مجھ جیسے گنہ گار کے ساتھ

کون سا رشتہ ہے گرتی ہوئی دیوار کے ساتھ

ٹکرا گیا وہ مجھ سے کتابیں لیے ہوئے

پھر میرا دل اور اس کی کتابیں بکھر گئیں

نہ جانے کیوں زمانہ ہنس رہا ہے مری حالت پر

جنوں میں جیسا ہونا چاہیئے ویسا گریباں ہے

مجھ کو چھاؤں میں رکھا اور خود بھی وہ جلتا رہا

میں نے دیکھا اک فرشتہ باپ کی پرچھائیں میں

ادب لاکھ تھا پھر بھی ان کی طرف

نظر میری اکثر رہی دیکھتی

اب کے جاتے ہوئے اس طرح کیا اس نے سلام

ڈوبنے والا کوئی ہاتھ اٹھائے جیسے

پھر تو نے دیا ہے نیا فاصلہ مجھے

سر پر ابھی تو پچھلی مسافت کی دھول ہے

جھکتی ہے نگاہ اس کی مجھ سے مل کر

دیوار سے دھوپ اتر رہی ہے گویا

غم جاناں سے ربط ٹوٹ گیا

اب غم دہر سے پناہ نہیں

کاش میں پردے کا شکوہ ہی نہ کرتا ان سے

بے حجابی نے کیا اور بھی بیتاب مجھے

چلے جائیے مجھ سے دامن بچا کر

تصور سے بچ کر کہاں جائیے گا

وقت رخصت نشانی جو طلب کی تو کہا

داغ کافی ہے جدائی کا اگر یاد رہے

وقت رخصت تری آنکھوں کا وہ جھک سا جانا

اک مسافر کے لیے زاد سفر ہے اے دوست

بزم ساقی میں رکھا زہر کا پیالہ ہوگا

وہ پیے گا جو ترا چاہنے والا ہوگا

وہ دیکھتے ہیں جب کہ نہ دیکھے کوئی ان کو

دیکھے کوئی ان کو تو وہ دیکھا نہیں کرتے

دوپٹے کو آگے سے دہرا نہ اوڑھو

نمودار چیزیں چھپانے سے حاصل

مے خانۂ ہستی کا جب دور خراب آیا

کلڑھ میں شراب آئی پتے پہ کباب آیا

ادھر سے تقاضا ادھر سے تغافل

عجب کھینچا تانی میں پیغام بر ہے

مانا کہ ستم تم نہیں کرتے ہو کسی پر

غیروں پہ کرم ہو یہ ستم بھی نہیں تھوڑا

شام سے ان کے تصور کا نشہ تھا اتنا

نیند آئی ہے تو آنکھوں نے برا مانا ہے

وہ جن کے پاؤں چھونے کو جھکتا تھا آسماں

کیا لوگ تھے کہ زیر زمیں جا کے بس گئے

دل میں رہتے جو مرے اور ہی کچھ ہو جاتے

یہ وہ کعبہ ہے کہ بت جس میں خدا ہوتے ہیں

جانی کیا آج میری برسی ہے

یعنی کیا آج مر گیا تھا میں

اس لیے اور بھی عزیز ہے موت

موت آتا نہیں ہے آتی ہے

روٹھا ہی رہے مجھ سے وو منظور ہے لیکن

یارو اسے سمجھاؤ مرا شہر نہ چھوڑے

سمجھ سکو تو سمجھ لو مری نگاہوں سے

کہ دل کی بات زباں سے کہی نہیں جاتی

فردوس ہم سے چھوٹ کے مدت گزر گئی

حوا کی جو خطا تھی وہ آدم کے سر گئی

عشق ہے عہد جوانی کے لیے

عہد پیری کے تقاضے اور ہیں

راز دل ہیں پوچھتے اور بولنے دیتے نہیں

بات منہ پر آ رہی ہے لب ہلانا ہے منع

دختر درزی کا سینہ دیکھ کر

دل میں یہ آیا کہ مل مل دیجیے

وہ آنکھوں آنکھوں میں کرتے ہیں اس طرح باتیں

کہ کانوں کان کسی کو خبر نہیں ہوتی

ہم نے اپنے آشیانے کے لیے

جو چبھیں دل میں وہی کانٹے لیے

رشتۂ الفت کو ظالم یوں نہ بے دردی سے توڑ

دل تو پھر جڑ جائے گا لیکن گرہ رہ جائے گی

حیراں ہوئے نہ تھے جو تصور میں بھی کبھی

تصویر ہو گئے مری تصویر دیکھ کر

ساقی نظر نہ آئے تو گردن جھکا کے دیکھ

شیشے میں ماہتاب ہے سچ بولتا ہوں میں

محبت ہو کسی کی یا عداوت

مزا دے جائے گی دل سے جو ہوگی

کیا ہی فتنہ ہے دختر قصاب

سینہ دکھلا کے ٹانگ دیتی ہے

مفلسی حس لطافت کو مٹا دیتی ہے

بھوک آداب کے سانچوں میں نہیں ڈھل سکتی

امن ہر شخص کی ضرورت ہے

اس لئے امن سے محبت ہے

یہ تو اک رسم جہاں ہے جو ادا ہوتی ہے

ورنہ سورج کی کہاں سالگرہ ہوتی ہے

یہ ہمیں ہیں کہ ترا درد چھپا کر دل میں

کام دنیا کے بہ دستور کیے جاتے ہیں

اے رحمت تمام کرم جب ہیں بے شمار

نا حق مرے گناہوں کا پھر کیوں حساب ہو

مانگی تھی ایک بار دعا ہم نے موت کی

شرمندہ آج تک ہیں میاں زندگی سے ہم

موت انجام زندگی ہے مگر

لوگ مرتے ہیں زندگی کے لیے

یادوں کی شال اوڑھ کے آوارہ گردیاں

کاٹی ہیں ہم نے یوں بھی دسمبر کی سردیاں

لام نستعلیق کا ہے اس بت خوشخط کی زلف

ہم تو کافر ہوں اگر بندے نہ ہوں اس لام کے

لپٹا جو بوسہ لے کے تو بولے کہ دیکھیے

یہ دوسری خطا ہے وہ پہلا قصور تھا

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے