تمام
تعارف
غزل20
نظم10
شعر563
مزاحیہ شاعری1
ای-کتاب35
تصویری شاعری 30
آڈیو 1
ویڈیو 630
قطعہ6
قصہ59
بچوں کی کہانی78
لوری1
گیت2
پہیلی37
نامعلوم کے اشعار
ہمیں بھی جلوہ گاہ ناز تک لیتے چلو موسیٰ
تمہیں غش آ گیا تو حسن جاناں کون دیکھے گا
خدا کے واسطے مہر سکوت توڑ بھی دے
تمام شہر تری گفتگو کا پیاسا ہے
خوف دوزخ سے کبھی خواہش جنت سے کبھی
مجھ کو اس طرز عبادت پہ ہنسی آتی ہے
آپ کیوں رہتے ہیں مجھ جیسے گنہ گار کے ساتھ
کون سا رشتہ ہے گرتی ہوئی دیوار کے ساتھ
ٹکرا گیا وہ مجھ سے کتابیں لیے ہوئے
پھر میرا دل اور اس کی کتابیں بکھر گئیں
نہ جانے کیوں زمانہ ہنس رہا ہے مری حالت پر
جنوں میں جیسا ہونا چاہیئے ویسا گریباں ہے
مجھ کو چھاؤں میں رکھا اور خود بھی وہ جلتا رہا
میں نے دیکھا اک فرشتہ باپ کی پرچھائیں میں
اب کے جاتے ہوئے اس طرح کیا اس نے سلام
ڈوبنے والا کوئی ہاتھ اٹھائے جیسے
پھر تو نے دیا ہے نیا فاصلہ مجھے
سر پر ابھی تو پچھلی مسافت کی دھول ہے
جھکتی ہے نگاہ اس کی مجھ سے مل کر
دیوار سے دھوپ اتر رہی ہے گویا
کاش میں پردے کا شکوہ ہی نہ کرتا ان سے
بے حجابی نے کیا اور بھی بیتاب مجھے
وقت رخصت نشانی جو طلب کی تو کہا
داغ کافی ہے جدائی کا اگر یاد رہے
وقت رخصت تری آنکھوں کا وہ جھک سا جانا
اک مسافر کے لیے زاد سفر ہے اے دوست
بزم ساقی میں رکھا زہر کا پیالہ ہوگا
وہ پیے گا جو ترا چاہنے والا ہوگا
وہ دیکھتے ہیں جب کہ نہ دیکھے کوئی ان کو
دیکھے کوئی ان کو تو وہ دیکھا نہیں کرتے
مے خانۂ ہستی کا جب دور خراب آیا
کلڑھ میں شراب آئی پتے پہ کباب آیا
ادھر سے تقاضا ادھر سے تغافل
عجب کھینچا تانی میں پیغام بر ہے
مانا کہ ستم تم نہیں کرتے ہو کسی پر
غیروں پہ کرم ہو یہ ستم بھی نہیں تھوڑا
شام سے ان کے تصور کا نشہ تھا اتنا
نیند آئی ہے تو آنکھوں نے برا مانا ہے
وہ جن کے پاؤں چھونے کو جھکتا تھا آسماں
کیا لوگ تھے کہ زیر زمیں جا کے بس گئے
دل میں رہتے جو مرے اور ہی کچھ ہو جاتے
یہ وہ کعبہ ہے کہ بت جس میں خدا ہوتے ہیں
روٹھا ہی رہے مجھ سے وو منظور ہے لیکن
یارو اسے سمجھاؤ مرا شہر نہ چھوڑے
سمجھ سکو تو سمجھ لو مری نگاہوں سے
کہ دل کی بات زباں سے کہی نہیں جاتی
فردوس ہم سے چھوٹ کے مدت گزر گئی
حوا کی جو خطا تھی وہ آدم کے سر گئی
راز دل ہیں پوچھتے اور بولنے دیتے نہیں
بات منہ پر آ رہی ہے لب ہلانا ہے منع
وہ آنکھوں آنکھوں میں کرتے ہیں اس طرح باتیں
کہ کانوں کان کسی کو خبر نہیں ہوتی
رشتۂ الفت کو ظالم یوں نہ بے دردی سے توڑ
دل تو پھر جڑ جائے گا لیکن گرہ رہ جائے گی
حیراں ہوئے نہ تھے جو تصور میں بھی کبھی
تصویر ہو گئے مری تصویر دیکھ کر
ساقی نظر نہ آئے تو گردن جھکا کے دیکھ
شیشے میں ماہتاب ہے سچ بولتا ہوں میں
مفلسی حس لطافت کو مٹا دیتی ہے
بھوک آداب کے سانچوں میں نہیں ڈھل سکتی
یہ تو اک رسم جہاں ہے جو ادا ہوتی ہے
ورنہ سورج کی کہاں سالگرہ ہوتی ہے
یہ ہمیں ہیں کہ ترا درد چھپا کر دل میں
کام دنیا کے بہ دستور کیے جاتے ہیں
اے رحمت تمام کرم جب ہیں بے شمار
نا حق مرے گناہوں کا پھر کیوں حساب ہو
مانگی تھی ایک بار دعا ہم نے موت کی
شرمندہ آج تک ہیں میاں زندگی سے ہم
یادوں کی شال اوڑھ کے آوارہ گردیاں
کاٹی ہیں ہم نے یوں بھی دسمبر کی سردیاں
لام نستعلیق کا ہے اس بت خوشخط کی زلف
ہم تو کافر ہوں اگر بندے نہ ہوں اس لام کے