Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
noImage

خواجہ محمد وزیر

1795 - 1854 | لکھنؤ, انڈیا

19ویں صدی کے شاعر

19ویں صدی کے شاعر

خواجہ محمد وزیر کے اشعار

923
Favorite

باعتبار

اسی خاطر تو قتل عاشقاں سے منع کرتے تھے

اکیلے پھر رہے ہو یوسف بے کارواں ہو کر

ہے سایہ چاندنی اور چاند مکھڑا

دوپٹا آسمان آسماں ہے

دیکھنا حسرت دیدار اسے کہتے ہیں

پھر گیا منہ تری جانب دم مردن اپنا

کوئے جاناں سے جو اٹھتا ہوں تو سو جاتے ہیں پاؤں

دفعتاً آنکھوں سے پاؤں میں اتر آتی ہے نیند

آیا ہے مرے دل کا غبار آنسوؤں کے ساتھ

لو اب تو ہوئی مالک خشکی و تری آنکھ

جب خفا ہوتا ہے تو یوں دل کو سمجھاتا ہوں میں

آج ہے نامہرباں کل مہرباں ہو جائے گا

جس کو آتے دیکھتا ہوں اے پری کہتا ہوں میں

آدمی بھیجا نہ ہو میرے بلانے کے لیے

سر مرا کاٹ کے پچھتائیے گا

کس کی پھر جھوٹی قسم کھائیے گا

یار تنہا گھر میں ہے افسوس لیکن ہم نہیں

حور تو ہے گلشن فردوس میں آدم نہیں

نہ پونچھو میرے آنسو تم نہ پونچھو

کہے گا کوئی تم کو خوشہ چیں ہے

ہے چشم نیم باز عجب خواب ناز ہے

فتنہ تو سو رہا ہے در فتنہ باز ہے

زر دیا زور دیا مال دیا گنج دیے

اے فلک کون سے راحت کے عوض رنج دیے

حال پوچھو نہ مرے رونے کا بس جانے دو

ابھی رومال نچوڑوں گا تو طوفاں ہوگا

کہیں عدو نہ کہیں مجھ کو دیکھ کر محتاج

یہ ان کے بندے ہیں جن کو کریم کہتے ہیں

آئیں گے وقت خزاں چھوڑ دے آئی ہے بہار

لے لے صیاد قسم رکھ دے گلستاں سر پر

یوں پھر رہے ہیں جیسے کوئی بات ہی نہیں

آلودہ میرے خون سے داماں کیے ہوئے

غضب ہے روح سے اس جامۂ تن کا جدا ہونا

لباس تنگ ہے اترے گا آخر دھجیاں ہو کر

پھر وہی ہم تھے وہی تم تھے محبت تھے وہی

صلح کر لیتے اگر آنکھیں لڑانے کے لیے

ایک کو دو کر دکھائے آئنہ

گر بنائیں آہن شمشیر سے

چپ رہ کے گفتگو ہی سے پڑتا ہے تفرقہ

ہوتے ہیں دونو ہونٹ جدا اک صدا کے ساتھ

خاک میں مل جائے وہ چشمہ نہ جس میں آب ہو

پھوٹ جائے آنکھ اگر موقوف رونا ہو گیا

ہجر میں اک ماہ کے آنسو ہمارے گر پڑے

آسماں ٹوٹا شب فرقت ستارے گر پڑے

اپنے کوچے میں مجھے رونے تو دے اے رشک گل

باغباں پانی ہمیشہ دیتے ہیں گلزار کو

ہوئی گر صلح بھی تو بھی رہی جنگ

ملا جب دل تو آنکھ اس سے لڑا کی

دیکھا جسے بسمل کیا تاکا جسے مارا

اس آنکھ سے ڈریے جو خدا سے نہ ڈرے آنکھ

چھان ڈالا تمام کعبہ و دیر

اے ہمارے خدا کہاں تو ہے

بت بھی نہ بھولیں یاد خدا کی بھی کیجیے

پڑھیے نماز کر کے وضو آب گنگ سے

خود بہ خود اپنا جنازہ ہے رواں

ہم یہ کس کے کشتۂ رفتار ہیں

وصل کی رات ہے بگڑو نہ برابر تو رہے

پھٹ گیا میرا گریبان تمہارا دامن

وہ زخم لگا ہے کہ دکھائی نہیں دیتا

درکار ہوا مرہم نایاب کا پھاہا

برسوں گل خورشید و گل ماہ کو دیکھا

تازہ کوئی دکھلائے ہمیں چرخ کہن پھول

ہاتھ دکھلا کے یہ بولا وہ مسلماں زادہ

ہو گیا دست نگر اب تو برہمن اپنا

سب منجم کہتے ہیں اب ہے برابر رات دن

سر سے پا تک دیکھ کر زلف دراز یار کو

سلسلہ رکھتا ہے میرا کفر کچھ اسلام سے

ہیں کئی تسبیح کے دانے مری زنار میں

ترے کوچے کی شاید راہ بھولی

صبا پھرتی ہے مضطر کو بہ کو آج

سختیٔ ایام دوڑے آتی ہے پتھر لیے

کیا مرا نخل تمنا بارور ہونے لگا

اس خجالت نے ابد تک مجھے سونے نہ دیا

ہجر میں لگ گئی تھی ایک گھڑی میری آنکھ

بے تیرے مجھے دید کا کچھ شوق نہیں ہے

تو پردہ نشیں ہے تو نگہ گوشہ نشیں ہے

وو نہ آنکھوں سے ہو جدا یا رب

جب تلک میری آنکھ بند نہ ہو

پہن لو اے بتو زنار تسبیح سلیمانی

رکھو راضی اسی پردے میں ہر شیخ و برہمن کو

سر آنکھوں سے کریں سجدہ جدھر ابرو ہلائے وہ

جدا کچھ کفر اور اسلام سے مذہب ہمارا ہے

ساقی کے آنے کی یہ تمنا ہے بزم میں

دست سبو بلند ہے دست دعا کے ساتھ

کیا دید کے قابل ترے کوچے کی زمیں ہے

ہر گام ہے نقش قدم رہ گزری آنکھ

زمیں بھی نکلی جاتی ہے مری پاؤں کے نیچے سے

مجھے مشکل ہوا ہے ساتھ دینا اپنے منزل کا

اے بتو در پردہ تم سے زاہدوں کو بھی ہے عشق

صورت تسبیح پنہاں رکھتے ہیں زنار کو

کاہیدہ مجھ کو دیکھ کے وہ غیرت پری

کہتا ہے آدمی ہو کہ مردم گیاہ ہو

پہنچایا تا بہ کعبۂ مقصود فقر نے

ترک لباس جامۂ احرام ہو گیا

میں نے یوسف جو کہا کیوں بگڑے

مول لے لے گا کوئی بک جائے گا؟

دیکھ پچھتائے گا او بت مرے ترسانے سے

اٹھ کے کعبے کو چلا جاؤں گا بت خانے سے

سر جھکائے رہا سدا گردوں

کیا کیا تھا جو شرمسار رہا

Recitation

بولیے