Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
noImage

خواجہ محمد وزیر

1795 - 1854 | لکھنؤ, انڈیا

19ویں صدی کے شاعر

19ویں صدی کے شاعر

خواجہ محمد وزیر کے اشعار

853
Favorite

باعتبار

ہے سایہ چاندنی اور چاند مکھڑا

دوپٹا آسمان آسماں ہے

دیکھنا حسرت دیدار اسے کہتے ہیں

پھر گیا منہ تری جانب دم مردن اپنا

جس کو آتے دیکھتا ہوں اے پری کہتا ہوں میں

آدمی بھیجا نہ ہو میرے بلانے کے لیے

آیا ہے مرے دل کا غبار آنسوؤں کے ساتھ

لو اب تو ہوئی مالک خشکی و تری آنکھ

سر مرا کاٹ کے پچھتائیے گا

کس کی پھر جھوٹی قسم کھائیے گا

کوئے جاناں سے جو اٹھتا ہوں تو سو جاتے ہیں پاؤں

دفعتاً آنکھوں سے پاؤں میں اتر آتی ہے نیند

جب خفا ہوتا ہے تو یوں دل کو سمجھاتا ہوں میں

آج ہے نامہرباں کل مہرباں ہو جائے گا

اسی خاطر تو قتل عاشقاں سے منع کرتے تھے

اکیلے پھر رہے ہو یوسف بے کارواں ہو کر

نہ پونچھو میرے آنسو تم نہ پونچھو

کہے گا کوئی تم کو خوشہ چیں ہے

زر دیا زور دیا مال دیا گنج دیے

اے فلک کون سے راحت کے عوض رنج دیے

یار تنہا گھر میں ہے افسوس لیکن ہم نہیں

حور تو ہے گلشن فردوس میں آدم نہیں

حال پوچھو نہ مرے رونے کا بس جانے دو

ابھی رومال نچوڑوں گا تو طوفاں ہوگا

آئیں گے وقت خزاں چھوڑ دے آئی ہے بہار

لے لے صیاد قسم رکھ دے گلستاں سر پر

یوں پھر رہے ہیں جیسے کوئی بات ہی نہیں

آلودہ میرے خون سے داماں کیے ہوئے

ایک کو دو کر دکھائے آئنہ

گر بنائیں آہن شمشیر سے

چپ رہ کے گفتگو ہی سے پڑتا ہے تفرقہ

ہوتے ہیں دونو ہونٹ جدا اک صدا کے ساتھ

بت بھی نہ بھولیں یاد خدا کی بھی کیجیے

پڑھیے نماز کر کے وضو آب گنگ سے

اپنے کوچے میں مجھے رونے تو دے اے رشک گل

باغباں پانی ہمیشہ دیتے ہیں گلزار کو

ہجر میں اک ماہ کے آنسو ہمارے گر پڑے

آسماں ٹوٹا شب فرقت ستارے گر پڑے

خود بہ خود اپنا جنازہ ہے رواں

ہم یہ کس کے کشتۂ رفتار ہیں

پھر وہی ہم تھے وہی تم تھے محبت تھے وہی

صلح کر لیتے اگر آنکھیں لڑانے کے لیے

وصل کی رات ہے بگڑو نہ برابر تو رہے

پھٹ گیا میرا گریبان تمہارا دامن

غضب ہے روح سے اس جامۂ تن کا جدا ہونا

لباس تنگ ہے اترے گا آخر دھجیاں ہو کر

ہے چشم نیم باز عجب خواب ناز ہے

فتنہ تو سو رہا ہے در فتنہ باز ہے

اس خجالت نے ابد تک مجھے سونے نہ دیا

ہجر میں لگ گئی تھی ایک گھڑی میری آنکھ

چھان ڈالا تمام کعبہ و دیر

اے ہمارے خدا کہاں تو ہے

ہاتھ دکھلا کے یہ بولا وہ مسلماں زادہ

ہو گیا دست نگر اب تو برہمن اپنا

کیا دید کے قابل ترے کوچے کی زمیں ہے

ہر گام ہے نقش قدم رہ گزری آنکھ

وو نہ آنکھوں سے ہو جدا یا رب

جب تلک میری آنکھ بند نہ ہو

زمیں بھی نکلی جاتی ہے مری پاؤں کے نیچے سے

مجھے مشکل ہوا ہے ساتھ دینا اپنے منزل کا

سلسلہ رکھتا ہے میرا کفر کچھ اسلام سے

ہیں کئی تسبیح کے دانے مری زنار میں

کہیں عدو نہ کہیں مجھ کو دیکھ کر محتاج

یہ ان کے بندے ہیں جن کو کریم کہتے ہیں

دیکھا جسے بسمل کیا تاکا جسے مارا

اس آنکھ سے ڈریے جو خدا سے نہ ڈرے آنکھ

سر آنکھوں سے کریں سجدہ جدھر ابرو ہلائے وہ

جدا کچھ کفر اور اسلام سے مذہب ہمارا ہے

ہوئی گر صلح بھی تو بھی رہی جنگ

ملا جب دل تو آنکھ اس سے لڑا کی

دیکھ پچھتائے گا او بت مرے ترسانے سے

اٹھ کے کعبے کو چلا جاؤں گا بت خانے سے

سختیٔ ایام دوڑے آتی ہے پتھر لیے

کیا مرا نخل تمنا بارور ہونے لگا

خاک میں مل جائے وہ چشمہ نہ جس میں آب ہو

پھوٹ جائے آنکھ اگر موقوف رونا ہو گیا

میں نے یوسف جو کہا کیوں بگڑے

مول لے لے گا کوئی بک جائے گا؟

برسوں گل خورشید و گل ماہ کو دیکھا

تازہ کوئی دکھلائے ہمیں چرخ کہن پھول

بے تیرے مجھے دید کا کچھ شوق نہیں ہے

تو پردہ نشیں ہے تو نگہ گوشہ نشیں ہے

ساقی کے آنے کی یہ تمنا ہے بزم میں

دست سبو بلند ہے دست دعا کے ساتھ

مرا کچھ حال کہہ کر ذکر مجنوں کرتے ہیں عاشق

کتاب عاشقی میں اپنا قصہ پیش خوانی ہے

ساقیا ہجر میں کب ہے ہوس گفت و شنید

ساغر گوش سے مینائے زباں دور رہے

اس بت کافر کا زاہد نے بھی نام ایسا جپا

دانۂ تسبیح ہر اک رام دانا ہو گیا

ترے کوچے کی شاید راہ بھولی

صبا پھرتی ہے مضطر کو بہ کو آج

پہن لو اے بتو زنار تسبیح سلیمانی

رکھو راضی اسی پردے میں ہر شیخ و برہمن کو

سر جھکائے رہا سدا گردوں

کیا کیا تھا جو شرمسار رہا

پھول جب جھڑنے لگے رنگیں بیانی سے مری

رہ گئی حیرت سے بلبل کھول کر منقار کو

اے بتو در پردہ تم سے زاہدوں کو بھی ہے عشق

صورت تسبیح پنہاں رکھتے ہیں زنار کو

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے