خواجہ محمد وزیر کے اشعار
ہے سایہ چاندنی اور چاند مکھڑا
دوپٹا آسمان آسماں ہے
دیکھنا حسرت دیدار اسے کہتے ہیں
پھر گیا منہ تری جانب دم مردن اپنا
جس کو آتے دیکھتا ہوں اے پری کہتا ہوں میں
آدمی بھیجا نہ ہو میرے بلانے کے لیے
آیا ہے مرے دل کا غبار آنسوؤں کے ساتھ
لو اب تو ہوئی مالک خشکی و تری آنکھ
سر مرا کاٹ کے پچھتائیے گا
کس کی پھر جھوٹی قسم کھائیے گا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
کوئے جاناں سے جو اٹھتا ہوں تو سو جاتے ہیں پاؤں
دفعتاً آنکھوں سے پاؤں میں اتر آتی ہے نیند
-
موضوع : نیند
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
جب خفا ہوتا ہے تو یوں دل کو سمجھاتا ہوں میں
آج ہے نامہرباں کل مہرباں ہو جائے گا
اسی خاطر تو قتل عاشقاں سے منع کرتے تھے
اکیلے پھر رہے ہو یوسف بے کارواں ہو کر
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
نہ پونچھو میرے آنسو تم نہ پونچھو
کہے گا کوئی تم کو خوشہ چیں ہے
زر دیا زور دیا مال دیا گنج دیے
اے فلک کون سے راحت کے عوض رنج دیے
یار تنہا گھر میں ہے افسوس لیکن ہم نہیں
حور تو ہے گلشن فردوس میں آدم نہیں
حال پوچھو نہ مرے رونے کا بس جانے دو
ابھی رومال نچوڑوں گا تو طوفاں ہوگا
آئیں گے وقت خزاں چھوڑ دے آئی ہے بہار
لے لے صیاد قسم رکھ دے گلستاں سر پر
یوں پھر رہے ہیں جیسے کوئی بات ہی نہیں
آلودہ میرے خون سے داماں کیے ہوئے
ایک کو دو کر دکھائے آئنہ
گر بنائیں آہن شمشیر سے
چپ رہ کے گفتگو ہی سے پڑتا ہے تفرقہ
ہوتے ہیں دونو ہونٹ جدا اک صدا کے ساتھ
بت بھی نہ بھولیں یاد خدا کی بھی کیجیے
پڑھیے نماز کر کے وضو آب گنگ سے
اپنے کوچے میں مجھے رونے تو دے اے رشک گل
باغباں پانی ہمیشہ دیتے ہیں گلزار کو
ہجر میں اک ماہ کے آنسو ہمارے گر پڑے
آسماں ٹوٹا شب فرقت ستارے گر پڑے
خود بہ خود اپنا جنازہ ہے رواں
ہم یہ کس کے کشتۂ رفتار ہیں
پھر وہی ہم تھے وہی تم تھے محبت تھے وہی
صلح کر لیتے اگر آنکھیں لڑانے کے لیے
وصل کی رات ہے بگڑو نہ برابر تو رہے
پھٹ گیا میرا گریبان تمہارا دامن
-
موضوع : وصال
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
غضب ہے روح سے اس جامۂ تن کا جدا ہونا
لباس تنگ ہے اترے گا آخر دھجیاں ہو کر
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
ہے چشم نیم باز عجب خواب ناز ہے
فتنہ تو سو رہا ہے در فتنہ باز ہے
اس خجالت نے ابد تک مجھے سونے نہ دیا
ہجر میں لگ گئی تھی ایک گھڑی میری آنکھ
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
ہاتھ دکھلا کے یہ بولا وہ مسلماں زادہ
ہو گیا دست نگر اب تو برہمن اپنا
کیا دید کے قابل ترے کوچے کی زمیں ہے
ہر گام ہے نقش قدم رہ گزری آنکھ
وو نہ آنکھوں سے ہو جدا یا رب
جب تلک میری آنکھ بند نہ ہو
زمیں بھی نکلی جاتی ہے مری پاؤں کے نیچے سے
مجھے مشکل ہوا ہے ساتھ دینا اپنے منزل کا
سلسلہ رکھتا ہے میرا کفر کچھ اسلام سے
ہیں کئی تسبیح کے دانے مری زنار میں
کہیں عدو نہ کہیں مجھ کو دیکھ کر محتاج
یہ ان کے بندے ہیں جن کو کریم کہتے ہیں
دیکھا جسے بسمل کیا تاکا جسے مارا
اس آنکھ سے ڈریے جو خدا سے نہ ڈرے آنکھ
سر آنکھوں سے کریں سجدہ جدھر ابرو ہلائے وہ
جدا کچھ کفر اور اسلام سے مذہب ہمارا ہے
ہوئی گر صلح بھی تو بھی رہی جنگ
ملا جب دل تو آنکھ اس سے لڑا کی
دیکھ پچھتائے گا او بت مرے ترسانے سے
اٹھ کے کعبے کو چلا جاؤں گا بت خانے سے
سختیٔ ایام دوڑے آتی ہے پتھر لیے
کیا مرا نخل تمنا بارور ہونے لگا
خاک میں مل جائے وہ چشمہ نہ جس میں آب ہو
پھوٹ جائے آنکھ اگر موقوف رونا ہو گیا
میں نے یوسف جو کہا کیوں بگڑے
مول لے لے گا کوئی بک جائے گا؟
برسوں گل خورشید و گل ماہ کو دیکھا
تازہ کوئی دکھلائے ہمیں چرخ کہن پھول
بے تیرے مجھے دید کا کچھ شوق نہیں ہے
تو پردہ نشیں ہے تو نگہ گوشہ نشیں ہے
ساقی کے آنے کی یہ تمنا ہے بزم میں
دست سبو بلند ہے دست دعا کے ساتھ
مرا کچھ حال کہہ کر ذکر مجنوں کرتے ہیں عاشق
کتاب عاشقی میں اپنا قصہ پیش خوانی ہے
ساقیا ہجر میں کب ہے ہوس گفت و شنید
ساغر گوش سے مینائے زباں دور رہے
اس بت کافر کا زاہد نے بھی نام ایسا جپا
دانۂ تسبیح ہر اک رام دانا ہو گیا
ترے کوچے کی شاید راہ بھولی
صبا پھرتی ہے مضطر کو بہ کو آج
پہن لو اے بتو زنار تسبیح سلیمانی
رکھو راضی اسی پردے میں ہر شیخ و برہمن کو
پھول جب جھڑنے لگے رنگیں بیانی سے مری
رہ گئی حیرت سے بلبل کھول کر منقار کو
اے بتو در پردہ تم سے زاہدوں کو بھی ہے عشق
صورت تسبیح پنہاں رکھتے ہیں زنار کو