aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Shaikh Ibrahim Zauq's Photo'

شیخ ابراہیم ذوقؔ

1790 - 1854 | دلی, انڈیا

آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے استاد اور ملک الشعرا۔ غالب کے ساتھ ان کی رقابت مشہور ہے

آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے استاد اور ملک الشعرا۔ غالب کے ساتھ ان کی رقابت مشہور ہے

شیخ ابراہیم ذوقؔ کے اشعار

40.2K
Favorite

باعتبار

تم بھول کر بھی یاد نہیں کرتے ہو کبھی

ہم تو تمہاری یاد میں سب کچھ بھلا چکے

مرض عشق جسے ہو اسے کیا یاد رہے

نہ دوا یاد رہے اور نہ دعا یاد رہے

اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے

مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے

زاہد شراب پینے سے کافر ہوا میں کیوں

کیا ڈیڑھ چلو پانی میں ایمان بہہ گیا

تشریح

یہ شعر معنی اور تلازمات دونوں کے اعتبار سے دلچسپ ہے۔ شعر میں وہی الفاظ استعمال ہوئے ہیں، جنہیں اردو غزل کی روایت کا خاصہ سمجھا جاتا ہے۔ مثلاً زاہدِ شراب، کافر، ایمان۔ مگر معنی کی سطح پر ذوقؔ نے طنزیہ لہجے سے جو بات پیدا کی ہے وہ قاری کو چونکا دیتی ہے۔ شعر میں زاہد کی مناسبت سے شراب، کافر کی مناسبت سے ایمان کے علاوہ پینے، پانی اور بہنے سے جو کیفیت پیدا ہوئی ہے وہ اپنے اندر میں ایک شاعرانہ کمال ہے۔ زاہد اردو غزل کی روایت میں ان کرداروں میں سے ایک ہے جن پر شاعروں نے کھل کر طنز کئے ہیں۔

شعر ی کردار زاہد سے سوال پوچھتا ہے کہ شراب پینے سے آدمی کافر کیسے ہوسکتا ہے، کیا ایمان اس قدر کمزور چیز ہوتی ہے کہ ذرا سے پانی کے ساتھ بہہ جاتا ہے۔ اس شعر کے بین السطور میں جو زاہد پر طنز کیا گیا ہے وہ ’’ڈیڑھ چلو‘‘ پانی سے ظاہر ہوتا ہے۔ یعنی میں نے تو ذرا سی شراب پی لی ہے اور تم نے مجھ پر کافر ہونے کا فتویٰ صادر کیا۔ کیا تمہاری نظر میں ایمان اس قدر کمزور شےہے کہ ذرا سی شراب پینے سے ختم ہوتا ہے۔

شفق سوپوری

ایک آنسو نے ڈبویا مجھ کو ان کی بزم میں

بوند بھر پانی سے ساری آبرو پانی ہوئی

اے ذوقؔ تکلف میں ہے تکلیف سراسر

آرام میں ہے وہ جو تکلف نہیں کرتا

تشریح

یہ ذوق کا ایک خوبصورت شعر ہے اور اس میں ذوقؔ نے ایک اہم نکتے والی بات بتائی ہے۔ اگرچہ اس شعر کا اہم لفظ تکلف ہے مگر تکلیف کی رعایت سے آرام بہت تکلیف پیدا کرتے ہیں۔

ذوق اس شعر میں تکلف یعنی بناوٹ کی بدعت پر روشنی ڈالتے ہی۔ بناوٹ وہ چیز ہووتی ہے جس میں حقیقت نہ ہو یعنی جو بناوٹی ہو۔ بناوٹ زندگی کے تمام معاملات میں بھی ہوتی ہے اور رشتوں میں بھی۔ عام معاملات میں بناوٹ سے مراد یہ ہے کہ آدمی اپنی وہ حیثیت دکھانے کی کوشش کرے جو اصلی نہ ہو اور رشتوں میں بناوٹ سے مراد ایسے جذبات کا اظہار کرنا جو حقیقی نہ ہوں۔ بہرحال معاملہ جو بھی ہے اگر انسان عام معاملات میں بناوٹ سے کام لے تو خود کوو نقصان پہنچاتا ہے اور اگر رشتوں میں بناوٹ سے کام لے تو ایک نہ ایک دن تو بناوٹ کھل ہی جاتی ہے پھر رشتے ٹوٹ جاتے ہیں۔

ذوق کہتے کہ دراصل بناوٹ اور تضع ایک بھرپور تکلیف ہے اور جو آدمی بناوٹ سے کام نہیں لیتا اگرچہ وقتی طور پر اسے تکلیف محسوس ہوتی ہے مگر بالآخر آرام میں ہوتا ہے۔ لہٰذا انسان کو بناوٹ سے پرہیز کرنا چاہئے۔

شفق سوپوری

معلوم جو ہوتا ہمیں انجام محبت

لیتے نہ کبھی بھول کے ہم نام محبت

ذوقؔ جو مدرسے کے بگڑے ہوئے ہیں ملا

ان کو مے خانے میں لے آؤ سنور جائیں گے

کتنے مفلس ہو گئے کتنے تونگر ہو گئے

خاک میں جب مل گئے دونوں برابر ہو گئے

اے ذوقؔ دیکھ دختر رز کو نہ منہ لگا

چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی

لائی حیات آئے قضا لے چلی چلے

اپنی خوشی نہ آئے نہ اپنی خوشی چلے

بجا کہے جسے عالم اسے بجا سمجھو

زبان خلق کو نقارۂ خدا سمجھو

ہم رونے پہ آ جائیں تو دریا ہی بہا دیں

شبنم کی طرح سے ہمیں رونا نہیں آتا

آدمیت اور شے ہے علم ہے کچھ اور شے

کتنا طوطے کو پڑھایا پر وہ حیواں ہی رہا

بوسہ جو رخ کا دیتے نہیں لب کا دیجئے

یہ ہے مثل کہ پھول نہیں پنکھڑی سہی

مسجد میں اس نے ہم کو آنکھیں دکھا کے مارا

کافر کی شوخی دیکھو گھر میں خدا کے مارا

ناز ہے گل کو نزاکت پہ چمن میں اے ذوقؔ

اس نے دیکھے ہی نہیں ناز و نزاکت والے

بہتر تو ہے یہی کہ نہ دنیا سے دل لگے

پر کیا کریں جو کام نہ بے دل لگی چلے

کیا جانے اسے وہم ہے کیا میری طرف سے

جو خواب میں بھی رات کو تنہا نہیں آتا

حق نے تجھ کو اک زباں دی اور دیئے ہیں کان دو

اس کے یہ معنی کہے اک اور سنے انسان دو

ان دنوں گرچہ دکن میں ہے بڑی قدر سخن

کون جائے ذوقؔ پر دلی کی گلیاں چھوڑ کر

اے شمع تیری عمر طبیعی ہے ایک رات

ہنس کر گزار یا اسے رو کر گزار دے

رلائے گی مری یاد ان کو مدتوں صاحب

کریں گے بزم میں محسوس جب کمی میری

تم جسے یاد کرو پھر اسے کیا یاد رہے

نہ خدائی کی ہو پروا نہ خدا یاد رہے

کیا دیکھتا ہے ہاتھ مرا چھوڑ دے طبیب

یاں جان ہی بدن میں نہیں نبض کیا چلے

وقت پیری شباب کی باتیں

ایسی ہیں جیسے خواب کی باتیں

سب کو دنیا کی ہوس خوار لیے پھرتی ہے

کون پھرتا ہے یہ مردار لیے پھرتی ہے

تواضع کا طریقہ صاحبو پوچھو صراحی سے

کہ جاری فیض بھی ہے اور جھکی جاتی ہے گردن بھی

ہم نہیں وہ جو کریں خون کا دعویٰ تجھ پر

بلکہ پوچھے گا خدا بھی تو مکر جائیں گے

رہتا سخن سے نام قیامت تلک ہے ذوقؔ

اولاد سے رہے یہی دو پشت چار پشت

خط بڑھا کاکل بڑھے زلفیں بڑھیں گیسو بڑھے

حسن کی سرکار میں جتنے بڑھے ہندو بڑھے

دیکھ چھوٹوں کو ہے اللہ بڑائی دیتا

آسماں آنکھ کے تل میں ہے دکھائی دیتا

نہ ہوا پر نہ ہوا میرؔ کا انداز نصیب

ذوقؔ یاروں نے بہت زور غزل میں مارا

بے قراری کا سبب ہر کام کی امید ہے

ناامیدی ہو تو پھر آرام کی امید ہے

جو کہو گے تم کہیں گے ہم بھی ہاں یوں ہی سہی

آپ کی گر یوں خوشی ہے مہرباں یوں ہی سہی

گیا شیطان مارا ایک سجدہ کے نہ کرنے میں

اگر لاکھوں برس سجدے میں سر مارا تو کیا مارا

دنیا نے کس کا راہ فنا میں دیا ہے ساتھ

تم بھی چلے چلو یوں ہی جب تک چلی چلے

پھول تو دو دن بہار جاں فزا دکھلا گئے

حسرت ان غنچوں پہ ہے جو بن کھلے مرجھا گئے

شکر پردے ہی میں اس بت کو حیا نے رکھا

ورنہ ایمان گیا ہی تھا خدا نے رکھا

پلا مے آشکارا ہم کو کس کی ساقیا چوری

خدا سے جب نہیں چوری تو پھر بندے سے کیا چوری

باقی ہے دل میں شیخ کے حسرت گناہ کی

کالا کرے گا منہ بھی جو داڑھی سیاہ کی

موت نے کر دیا لاچار وگرنہ انساں

ہے وہ خودبیں کہ خدا کا بھی نہ قائل ہوتا

ہمیں نرگس کا دستہ غیر کے ہاتھوں سے کیوں بھیجا

جو آنکھیں ہی دکھانی تھیں دکھاتے اپنی نظروں سے

مزے جو موت کے عاشق بیاں کبھو کرتے

مسیح و خضر بھی مرنے کی آرزو کرتے

کل جہاں سے کہ اٹھا لائے تھے احباب مجھے

لے چلا آج وہیں پھر دل بے تاب مجھے

بعد رنجش کے گلے ملتے ہوئے رکتا ہے دل

اب مناسب ہے یہی کچھ میں بڑھوں کچھ تو بڑھے

تو جان ہے ہماری اور جان ہے تو سب کچھ

ایمان کی کہیں گے ایمان ہے تو سب کچھ

ایک پتھر پوجنے کو شیخ جی کعبے گئے

ذوقؔ ہر بت قابل بوسہ ہے اس بت خانے میں

نکالوں کس طرح سینے سے اپنے تیر جاناں کو

نہ پیکاں دل کو چھوڑے ہے نہ دل چھوڑے ہے پیکاں کو

احسان نا خدا کا اٹھائے مری بلا

کشتی خدا پہ چھوڑ دوں لنگر کو توڑ دوں

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے