Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Bismil Azimabadi's Photo'

بسمل عظیم آبادی

1901 - 1978 | پٹنہ, انڈیا

عظیم آباد کے نامور شاعر، مشہور زمانہ شعر ’سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے / دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے‘ کے خالق

عظیم آباد کے نامور شاعر، مشہور زمانہ شعر ’سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے / دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے‘ کے خالق

بسمل عظیم آبادی کے اشعار

17.2K
Favorite

باعتبار

کہاں تمام ہوئی داستان بسملؔ کی

بہت سی بات تو کہنے کو رہ گئی اے دوست

کہاں قرار ہے کہنے کو دل قرار میں ہے

جو تھی خزاں میں وہی کیفیت بہار میں ہے

آزادی نے بازو بھی سلامت نہیں رکھے

اے طاقت پرواز تجھے لائیں کہاں سے

کس حال میں ہو کیسے ہو کیا کرتے ہو بسملؔ

مرتے ہو کہ جیتے ہو زمانے کے اثر سے

بیابان جنوں میں شام غربت جب ستایا کی

مجھے رہ رہ کر اے صبح وطن تو یاد آیا کی

چمن کو لگ گئی کس کی نظر خدا جانے

چمن رہا نہ رہے وہ چمن کے افسانے

یہ کہہ کے دیتی جاتی ہے تسکیں شب فراق

وہ کون سی ہے رات کہ جس کی سحر نہ ہو

بسملؔ بتوں کا عشق مبارک تمہیں مگر

اتنے نڈر نہ ہو کہ خدا کا بھی ڈر نہ ہو

سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے

دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے

رہرو راہ محبت رہ نہ جانا راہ میں

لذت صحرا نوردی دورئ منزل میں ہے

وقت آنے دے دکھا دیں گے تجھے اے آسماں

ہم ابھی سے کیوں بتائیں کیا ہمارے دل میں ہے

ہو نہ مایوس خدا سے بسملؔ

یہ برے دن بھی گزر جائیں گے

یہ زندگی بھی کوئی زندگی ہوئی بسملؔ

نہ رو سکے نہ کبھی ہنس سکے ٹھکانے سے

اگل نہ سنگ ملامت خدا سے ڈر ناصح

ملے گا کیا تجھے شیشوں کے ٹوٹ جانے سے

دیکھا نہ تم نے آنکھ اٹھا کر بھی ایک بار

گزرے ہزار بار تمہاری گلی سے ہم

تم سن کے کیا کرو گے کہانی غریب کی

جو سب کی سن رہا ہے کہیں گے اسی سے ہم

مجبوریوں کو اپنی کہیں کیا کسی سے ہم

لائے گئے ہیں، آئے نہیں ہیں خوشی سے ہم

ایک دن وہ دن تھے رونے پہ ہنسا کرتے تھے ہم

ایک یہ دن ہیں کہ اب ہنسنے پہ رونا آئے ہے

اک غلط سجدے سے کیا ہوتا ہے واعظ کچھ نہ پوچھ

عمر بھر کی سب ریاضت خاک میں مل جائے ہے

ہنسی بسملؔ کی حالت پر کسی کو

کبھی آتی تھی اب آتی نہیں ہے

خزاں جب تک چلی جاتی نہیں ہے

چمن والوں کو نیند آتی نہیں ہے

اللہ تیرے ہاتھ ہے اب آبروئے شوق

دم گھٹ رہا ہے وقت کی رفتار دیکھ کر

سودا وہ کیا کرے گا خریدار دیکھ کر

گھبرا گیا جو گرمئ بازار دیکھ کر

غیروں نے غیر جان کے ہم کو اٹھا دیا

بیٹھے جہاں بھی سایۂ دیوار دیکھ کر

جرأت شوق تو کیا کچھ نہیں کہتی لیکن

پاؤں پھیلانے نہیں دیتی ہے چادر مجھ کو

کیا کریں جام و سبو ہاتھ پکڑ لیتے ہیں

جی تو کہتا ہے کہ اٹھ جائیے مے خانے سے

داستاں پوری نہ ہونے پائی

زندگی ختم ہوئی جاتی ہے

نہ اپنے ضبط کو رسوا کرو ستا کے مجھے

خدا کے واسطے دیکھو نہ مسکرا کے مجھے

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے