Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Faheem Shanas Kazmi's Photo'

فہیم شناس کاظمی

1965 | کراچی, پاکستان

فہیم شناس کاظمی کے اشعار

1K
Favorite

باعتبار

بدلتے وقت نے بدلے مزاج بھی کیسے

تری ادا بھی گئی میرا بانکپن بھی گیا

اسی نے چاند کے پہلو میں اک چراغ رکھا

اسی نے دشت کے ذروں کو آفتاب کیا

کسی کے دل میں اترنا ہے کار لا حاصل

کہ ساری دھوپ تو ہے آفتاب سے باہر

تمہاری یاد نکلتی نہیں مرے دل سے

نشہ چھلکتا نہیں ہے شراب سے باہر

جن کو چھو کر کتنے زیدیؔ اپنی جان گنوا بیٹھے

میرے عہد کی شہنازوںؔ کے جسم بڑے زہریلے تھے

پھر وہی شام وہی درد وہی اپنا جنوں

جانے کیا یاد تھی وہ جس کو بھلائے گئے ہم

بچھڑ کے تجھ سے تری یاد بھی نہیں آئی

مکاں کی سمت پلٹ کر مکیں نہیں آیا

تیری گلی کے موڑ پہ پہنچے تھے جلد ہم

پر تیرے گھر کو آتے ہوئے دیر ہو گئی

کوئی بھی رستہ کسی سمت کو نہیں جاتا

کوئی سفر مری تکمیل کرنے والا نہیں

گزرا مرے قریب سے وہ اس ادا کے ساتھ

رستے کو چھو کے جس طرح رستہ گزر گیا

زندگی اب تو مجھے اور کھلونے لا دے

ایسے خوابوں سے تو میں دل نہیں بہلا سکتا

زمین پر نہ رہے آسماں کو چھوڑ دیا

تمہارے بعد زمان و مکاں کو چھوڑ دیا

تمام عمر ہوا کی طرح گزاری ہے

اگر ہوئے بھی کہیں تو کبھو کبھو ہوئے ہم

بس ایک بار وہ آیا تھا سیر کرنے کو

پھر اس کے ساتھ ہی خوشبو گئی چمن بھی گیا

یوں جگمگا اٹھا ہے تری یاد سے وجود

جیسے لہو سے کوئی ستارہ گزر گیا

کن دریچوں کے چراغوں سے ہمیں نسبت تھی

کہ ابھی جل نہیں پائے کہ بجھائے گئے ہم

اس کے لبوں کی گفتگو کرتے رہے سبو سبو

یعنی سخن ہوئے تمام یعنی کلام ہو چکا

صاحب! یہ میرا نامۂ تقدیر دیکھیے

اک شام ہجر اس میں کئی بار درج ہے

وہ جس کے ہاتھ سے تقریب دل نمائی تھی

ابھی وہ لمحۂ موجود میں نہیں آیا

خود اپنے ہونے کا ہر اک نشاں مٹا ڈالا

شناسؔ پھر کہیں موضوع گفتگو ہوئے ہم

Recitation

بولیے