Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Ghulam Mohammad Qasir's Photo'

غلام محمد قاصر

1941 - 1999 | ڈیرہ اسمٰعیل خان, پاکستان

پاکستان کے مقبول اور ممتاز شاعر

پاکستان کے مقبول اور ممتاز شاعر

غلام محمد قاصر کے اشعار

17.8K
Favorite

باعتبار

کروں گا کیا جو محبت میں ہو گیا ناکام

مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا

گلیوں کی اداسی پوچھتی ہے گھر کا سناٹا کہتا ہے

اس شہر کا ہر رہنے والا کیوں دوسرے شہر میں رہتا ہے

یہ بھی اک رنگ ہے شاید مری محرومی کا

کوئی ہنس دے تو محبت کا گماں ہوتا ہے

تم یوں ہی ناراض ہوئے ہو ورنہ مے خانے کا پتا

ہم نے ہر اس شخص سے پوچھا جس کے نین نشیلے تھے

بارود کے بدلے ہاتھوں میں آ جائے کتاب تو اچھا ہو

اے کاش ہماری آنکھوں کا اکیسواں خواب تو اچھا ہو

دن اندھیروں کی طلب میں گزرا

رات کو شمع جلا دی ہم نے

ارادہ تھا جی لوں گا تجھ سے بچھڑ کر

گزرتا نہیں اک دسمبر اکیلے

کتاب آرزو کے گم شدہ کچھ باب رکھے ہیں

ترے تکیے کے نیچے بھی ہمارے خواب رکھے ہیں

ہر بچہ آنکھیں کھولتے ہی کرتا ہے سوال محبت کا

دنیا کے کسی گوشے سے اسے مل جائے جواب تو اچھا ہو

آیا ہے اک راہ نما کے استقبال کو اک بچہ

پیٹ ہے خالی آنکھ میں حسرت ہاتھوں میں گلدستہ ہے

یاد اشکوں میں بہا دی ہم نے

آ کہ ہر بات بھلا دی ہم نے

بغیر اس کے اب آرام بھی نہیں آتا

وہ شخص جس کا مجھے نام بھی نہیں آتا

سب سے اچھا کہہ کے اس نے مجھ کو رخصت کر دیا

جب یہاں آیا تو پھر سب سے برا بھی میں ہی تھا

تری آواز کو اس شہر کی لہریں ترستی ہیں

غلط نمبر ملاتا ہوں تو پہروں بات ہوتی ہے

کشتی بھی نہیں بدلی دریا بھی نہیں بدلا

اور ڈوبنے والوں کا جذبہ بھی نہیں بدلا

پہلے اک شخص میری ذات بنا

اور پھر پوری کائنات بنا

وفا کے شہر میں اب لوگ جھوٹ بولتے ہیں

تو آ رہا ہے مگر سچ کو مانتا ہے تو آ

اب اسی آگ میں جلتے ہیں جسے

اپنے دامن سے ہوا دی ہم نے

ہم نے تمہارے غم کو حقیقت بنا دیا

تم نے ہمارے غم کے فسانے بنائے ہیں

پیار گیا تو کیسے ملتے رنگ سے رنگ اور خواب سے خواب

ایک مکمل گھر کے اندر ہر تصویر ادھوری تھی

ہم تو وہاں پہنچ نہیں سکتے تمام عمر

آنکھوں نے اتنی دور ٹھکانے بنائے ہیں

زمانوں کو اڑانیں برق کو رفتار دیتا تھا

مگر مجھ سے کہا ٹھہرے ہوئے شام و سحر لے جا

خوشبو گرفت عکس میں لایا اور اس کے بعد

میں دیکھتا رہا تری تصویر تھک گئی

کوئی منہ پھیر لیتا ہے تو قاصرؔ اب شکایت کیا

تجھے کس نے کہا تھا آئنے کو توڑ کر لے جا

محبت کی گواہی اپنے ہونے کی خبر لے جا

جدھر وہ شخص رہتا ہے مجھے اے دل! ادھر لے جا

گلابوں کے نشیمن سے مرے محبوب کے سر تک

سفر لمبا تھا خوشبو کا مگر آ ہی گئی گھر تک

یہ حادثہ ہے کہ ناراض ہو گیا سورج

میں رو رہا تھا لپٹ کر خود اپنے سائے سے

ہر سال کی آخری شاموں میں دو چار ورق اڑ جاتے ہیں

اب اور نہ بکھرے رشتوں کی بوسیدہ کتاب تو اچھا ہو

سوچا ہے تمہاری آنکھوں سے اب میں ان کو ملوا ہی دوں

کچھ خواب جو ڈھونڈتے پھرتے ہیں جینے کا سہارا آنکھوں میں

ہزاروں اس میں رہنے کے لیے آئے

مکاں میں نے تصور میں بنایا تھا

وہ لوگ مطمئن ہیں کہ پتھر ہیں ان کے پاس

ہم خوش کہ ہم نے آئینہ خانے بنائے ہیں

ہر سال بہار سے پہلے میں پانی پر پھول بناتا ہوں

پھر چاروں موسم لکھ جاتے ہیں نام تمہارا آنکھوں میں

بیاباں دور تک میں نے سجایا تھا

مگر وہ شہر کے رستے سے آیا تھا

ہجر کے تپتے موسم میں بھی دل ان سے وابستہ ہے

اب تک یاد کا پتا پتا ڈالی سے پیوستہ ہے

نام لکھ لکھ کے ترا پھول بنانے والا

آج پھر شبنمیں آنکھوں سے ورق دھوتا ہے

پیاس کی سلطنت نہیں مٹتی

لاکھ دجلے بنا فرات بنا

کہتے ہیں ان شاخوں پر پھل پھول بھی آتے تھے

اب تو پتے جھڑتے ہیں یا پتھر گرتے ہیں

امید کی سوکھتی شاخوں سے سارے پتے جھڑ جائیں گے

اس خوف سے اپنی تصویریں ہم سال بہ سال بناتے ہیں

جن کی درد بھری باتوں سے ایک زمانہ رام ہوا

قاصرؔ ایسے فن کاروں کی قسمت میں بن باس رہا

بے کار گیا بن میں سونا مرا صدیوں کا

اس شہر میں تو اب تک سکہ بھی نہیں بدلا

اسی کی شکل مجھے چاند میں نظر آئے

وہ ماہ رخ جو لب بام بھی نہیں آتا

جس کو اس فصل میں ہونا ہے برابر کا شریک

میرے احساس میں تنہائیاں کیوں بوتا ہے

شوق برہنہ پا چلتا تھا اور رستے پتھریلے تھے

گھستے گھستے گھس گئے آخر کنکر جو نوکیلے تھے

اس طرح قحط ہوا کی زد میں ہے میرا وجود

آندھیاں پہچان لیتی ہیں بہ آسانی مجھے

سایوں کی زد میں آ گئیں ساری غلام گردشیں

اب تو کنیز کے لیے راہ فرار بھی نہیں

یوں ہی آساں نہیں ہے نور میں تحلیل ہو جانا

وہ ساتوں رنگ قاصرؔ ایک پیراہن میں رکھتا ہے

میں بدن کو درد کے ملبوس پہناتا رہا

روح تک پھیلی ہوئی ملتی ہے عریانی مجھے

میں گن رہا تھا شعاعوں کے بے کفن لاشے

اتر رہی تھی شب غم شفق کے زینے سے

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے