aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Sajjad Baqar Rizvi's Photo'

سجاد باقر رضوی

1928 - 1992 | کراچی, پاکستان

سجاد باقر رضوی کے اشعار

2.2K
Favorite

باعتبار

ٹوٹ پڑتی تھیں گھٹائیں جن کی آنکھیں دیکھ کر

وہ بھری برسات میں ترسے ہیں پانی کے لیے

پہلے چادر کی ہوس میں پاؤں پھیلائے بہت

اب یہ دکھ ہے پاؤں کیوں چادر سے باہر آ گیا

ہمارے دم سے ہے روشن دیار فکر و سخن

ہمارے بعد یہ گلیاں دھواں دھواں ہوں گی

مرا غزال کہ وحشت تھی جس کو سائے سے

لپٹ گیا مرے سینے سے آدمی کی طرح

میں ہم نفساں جسم ہوں وہ جاں کی طرح تھا

میں درد ہوں وہ درد کے عنواں کی طرح تھا

کیا کیا نہ ترے شوق میں ٹوٹے ہیں یہاں کفر

کیا کیا نہ تری راہ میں ایمان گئے ہیں

شہر کے آباد سناٹوں کی وحشت دیکھ کر

دل کو جانے کیا ہوا میں شام سے گھر آ گیا

میں سرگراں تھا ہجر کی راتوں کے قرض سے

مایوس ہو کے لوٹ گئے دن وصال کے

من دھن سب قربان کیا اب سر کا سودا باقی ہے

ہم تو بکے تھے اونے پونے پیار کی قیمت کم نہ ہوئی

دو کنارے ہوں تو سیل زندگی دریا بنے

ایک حد لازم ہے پانی کی روانی کے لیے

زلفیں ادھر کھلیں ادھر آنسو امنڈ پڑے

ہیں سب کے اپنے اپنے روابط گھٹا کے ساتھ

پھر ذہن کی گلیوں میں صدا گونجی ہے کوئی

پھر سوچ رہے ہیں کہیں آواز سنی ہے

پھرتی تھی لے کے شورش دل کو بہ کو ہمیں

منزل ملی تو شورش دل کا پتا نہ تھا

ہر رنگ ہر آہنگ مرے سامنے عاجز

میں کوہ معانی کی بلندی پہ کھڑا ہوں

چھلکی ہر موج بدن سے حسن کی دریا دلی

بوالہوس کم ظرف دو چلو میں متوالے ہوئے

مرے سفر کی حدیں ختم اب کہاں ہوں گی

کہ منزلیں بھی تو آخر رواں دواں ہوں گی

کھینچے ہے مجھے دست جنوں دشت طلب میں

دامن جو بچائے ہیں گریبان گئے ہیں

سامان دل کو بے سر و سامانیاں ملیں

کچھ اور بھی جواب تھے میرے سوال کے

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے