زبیر رضوی
غزل 40
نظم 37
اشعار 32
تم اپنے چاند تارے کہکشاں چاہے جسے دینا
مری آنکھوں پہ اپنی دید کی اک شام لکھ دینا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
یہ لمحہ لمحہ تکلف کے ٹوٹتے رشتے
نہ اتنے پاس مرے آ کہ تو پرانا لگے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
پرانے لوگ دریاؤں میں نیکی ڈال آتے تھے
ہمارے دور کا انسان نیکی کر کے چیخے گا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
شام کی دہلیز پر ٹھہری ہوئی یادیں زبیرؔ
غم کی محرابوں کے دھندلے آئینے چمکا گئیں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
کیوں متاع دل کے لٹ جانے کا کوئی غم کرے
شہر دلی میں تو ایسے واقعے ہوتے رہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
گیت 1
کتاب 82
تصویری شاعری 4
کہاں میں جاؤں غم_عشق_رائیگاں لے کر یہ اپنے رنج یہ اپنی اداسیاں لے کر جلا ہے دل یا کوئی گھر یہ دیکھنا لوگو ہوائیں پھرتی ہیں چاروں طرف دھواں لے کر بس اک ہمارا لہو صرف_قتل_گاہ ہوا کھڑے ہوئے تھے بہت اپنے جسم و جاں لے کر نئے گھروں میں نہ روزن تھے اور نہ محرابیں پرندے لوٹ گئے اپنے آشیاں لے کر سمندروں کے سفر جن کے نام لکھے تھے اتر گئے وہ کناروں پہ کشتیاں لے کر تلاش کرتے ہیں نو_ساختہ مکانوں میں ہم اپنے گھر کو پرانی نشانیاں لے کر انہیں بھی سہنے پڑے تھے عذاب موسم کے چلے تھے اپنے سروں پر جو سائباں لے کر ہوا میں ہلتے ہوئے ہاتھ پوچھتے ہیں زبیرؔ تم اب گئے تو کب آؤ_گے چھٹیاں لے کر