یاد رفتگاں پر اشعار
رفتگاں کی یاد سے کسے چھٹکارا مل سکتا ہے ۔ گزرے ہوئے لوگوں کی یادیں برابر پلٹتی رہتی ہیں اور انسان بے چینی کے شدید لمحات سے گزرتا ہے ۔ تخلیقی ذہن کی حساسیت نے اس موضوع کو اور بھی زیادہ دلچسپ بنا دیا ہے اور ایسے ایسے باریک احساسات لفظوں میں قید ہوگئے ہیں جن سے ہم سب گزرتے تو ہیں لیکن ان پر رک کر سوچ نہیں سکتے ۔ ہمارا یہ انتخاب پڑھئے اور اپنے اپنے رفتگاں کی نئے سرے سے بازیافت کیجئے ۔
اب یاد رفتگاں کی بھی ہمت نہیں رہی
یاروں نے کتنی دور بسائی ہیں بستیاں
-
موضوع : مشہور اشعار
اٹھ گئی ہیں سامنے سے کیسی کیسی صورتیں
روئیے کس کے لیے کس کس کا ماتم کیجئے
-
موضوعات : خراجاور 1 مزید
وہ راتیں چاند کے ساتھ گئیں وہ باتیں چاند کے ساتھ گئیں
اب سکھ کے سپنے کیا دیکھیں جب دکھ کا سورج سر پر ہو
-
موضوعات : چانداور 1 مزید
اک زمانہ تھا کہ سب ایک جگہ رہتے تھے
اور اب کوئی کہیں کوئی کہیں رہتا ہے
بچھڑے لوگوں سے ملاقات کبھی پھر ہوگی
دل میں امید تو کافی ہے یقیں کچھ کم ہے
سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں
-
موضوعات : خراجاور 1 مزید
کتنے اچھے لوگ تھے کیا رونقیں تھیں ان کے ساتھ
جن کی رخصت نے ہمارا شہر سونا کر دیا
جنہیں اب گردش افلاک پیدا کر نہیں سکتی
کچھ ایسی ہستیاں بھی دفن ہیں گور غریباں میں
وہ وقت بھی آتا ہے جب آنکھوں میں ہماری
پھرتی ہیں وہ شکلیں جنہیں دیکھا نہیں ہوتا
جس کی سانسوں سے مہکتے تھے در و بام ترے
اے مکاں بول کہاں اب وہ مکیں رہتا ہے
وہ جن کے نقش قدم دیکھنے میں آتے ہیں
اب ایسے لوگ تو کم دیکھنے میں آتے ہیں
جو مری شبوں کے چراغ تھے جو مری امید کے باغ تھے
وہی لوگ ہیں مری آرزو وہی صورتیں مجھے چاہئیں
کیسے قصے تھے کہ چھڑ جائیں تو اڑ جاتی تھی نیند
کیا خبر تھی وہ بھی حرف مختصر ہو جائیں گے