تمام
تعارف
غزل69
نظم1
شعر88
ای-کتاب321
ٹاپ ٢٠ شاعری 20
تصویری شاعری 12
آڈیو 28
ویڈیو 23
گیلری 2
بلاگ2
دیگر
نعت1
حسرتؔ موہانی کے اشعار
وفا تجھ سے اے بے وفا چاہتا ہوں
مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں
آئینے میں وہ دیکھ رہے تھے بہار حسن
آیا مرا خیال تو شرما کے رہ گئے
شعر دراصل ہیں وہی حسرتؔ
سنتے ہی دل میں جو اتر جائیں
ملتے ہیں اس ادا سے کہ گویا خفا نہیں
کیا آپ کی نگاہ سے ہم آشنا نہیں
کیا بلا تھی ادائے پرسش یار
مجھ سے اظہار مدعا نہ ہوا
برق کو ابر کے دامن میں چھپا دیکھا ہے
ہم نے اس شوخ کو مجبور حیا دیکھا ہے
دیکھا کیے وہ مست نگاہوں سے بار بار
جب تک شراب آئی کئی دور ہو گئے
شکوۂ غم ترے حضور کیا
ہم نے بے شک بڑا قصور کیا
ایسے بگڑے کہ پھر جفا بھی نہ کی
دشمنی کا بھی حق ادا نہ ہوا
رعنائی خیال کو ٹھہرا دیا گناہ
واعظ بھی کس قدر ہے مذاق سخن سے دور
حسرتؔ کی بھی قبول ہو متھرا میں حاضری
سنتے ہیں عاشقوں پہ تمہارا کرم ہے آج
ہم کیا کریں اگر نہ تری آرزو کریں
دنیا میں اور بھی کوئی تیرے سوا ہے کیا
بہاریں ہم کو بھولیں یاد اتنا ہے کہ گلشن میں
گریباں چاک کرنے کا بھی اک ہنگام آیا تھا
دعوئ عاشقی ہے تو حسرتؔ کرو نباہ
یہ کیا کے ابتدا ہی میں گھبرا کے رہ گئے
حسرتؔ جو سن رہے ہیں وہ اہل وفا کا حال
اس میں بھی کچھ فریب تری داستاں کے ہیں
سبھی کچھ ہو چکا ان کا ہمارا کیا رہا حسرتؔ
نہ دیں اپنا نہ دل اپنا نہ جاں اپنی نہ تن اپنا
رات دن نامہ و پیغام کہاں تک دو گے
صاف کہہ دیجئے ملنا ہمیں منظور نہیں
کبھی کی تھی جو اب وفا کیجئے گا
مجھے پوچھ کر آپ کیا کیجئے گا
پھر اور تغافل کا سبب کیا ہے خدایا
میں یاد نہ آؤں انہیں ممکن ہی نہیں ہے
آپ کو آتا رہا میرے ستانے کا خیال
صلح سے اچھی رہی مجھ کو لڑائی آپ کی
قفس میں ہو دل بلبل شہید جلوۂ گل
خزاں نے جو نہ کیا تھا وہ اب بہار کرے
چھیڑا ہے دست شوق نے مجھ سے خفا ہیں وہ
گویا کہ اپنے دل پہ مجھے اختیار ہے
بدگماں آپ ہیں کیوں آپ سے شکوہ ہے کسے
جو شکایت ہے ہمیں گردش ایام سے ہے
خندۂ اہل جہاں کی مجھے پروا کیا ہے
تم بھی ہنستے ہو مرے حال پہ رونا ہے یہی
اقرار ہے کہ دل سے تمہیں چاہتے ہیں ہم
کچھ اس گناہ کی بھی سزا ہے تمہارے پاس
نہ ہو ابھی مگر آخر تو قدر ہوگی مری
کھلے گا حال غلام آپ پر غلام کے بعد
ہم جور پرستوں پہ گماں ترک وفا کا
یہ وہم کہیں تم کو گنہ گار نہ کر دے
کہاں ہم کہاں وصل جاناں کی حسرتؔ
بہت ہے انہیں اک نظر دیکھ لینا
پیغام حیات جاوداں تھا
ہر نغمۂ کرشن بانسری کا
چھپ نہیں سکتی چھپانے سے محبت کی نظر
پڑ ہی جاتی ہے رخ یار پہ حسرت کی نظر
جبیں پر سادگی نیچی نگاہیں بات میں نرمی
مخاطب کون کر سکتا ہے تم کو لفظ قاتل سے
اس نا خدا کے ظلم و ستم ہائے کیا کروں
کشتی مری ڈبوئی ہے ساحل کے آس پاس
غم آرزو کا حسرتؔ سبب اور کیا بتاؤں
مری ہمتوں کی پستی مرے شوق کی بلندی
مجھ کو دیکھو مرے مرنے کی تمنا دیکھو
پھر بھی ہے تم کو مسیحائی کا دعویٰ دیکھو
منحصر وقت مقرر پہ ملاقات ہوئی
آج یہ آپ کی جانب سے نئی بات ہوئی
واقف ہیں خوب آپ کے طرز جفا سے ہم
اظہار التفات کی زحمت نہ کیجیے
جو اور کچھ ہو تری دید کے سوا منظور
تو مجھ پہ خواہش جنت حرام ہو جائے
-
موضوع : دیدار
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
دیکھنے آئے تھے وہ اپنی محبت کا اثر
کہنے کو یہ ہے کہ آئے ہیں عیادت کر کے
-
موضوع : عیادت
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
شام ہو یا کہ سحر یاد انہیں کی رکھنی
دن ہو یا رات ہمیں ذکر انہیں کا کرنا
-
موضوع : یاد
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
ان کو یاں وعدے پہ آ لینے دے اے ابر بہار
جس قدر چاہنا پھر بعد میں برسا کرنا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
بے زبانی ترجمان شوق بے حد ہو تو ہو
ورنہ پیش یار کام آتی ہے تقریریں کہیں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
وصل کی بنتی ہیں ان باتوں سے تدبیریں کہیں
آرزوؤں سے پھرا کرتی ہیں تقدیریں کہیں
التفات یار تھا اک خواب آغاز وفا
سچ ہوا کرتی ہیں ان خوابوں کی تعبیریں کہیں
-
موضوع : خواب
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
نہیں آتی تو یاد ان کی مہینوں تک نہیں آتی
مگر جب یاد آتے ہیں تو اکثر یاد آتے ہیں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
حقیقت کھل گئی حسرتؔ ترے ترک محبت کی
تجھے تو اب وہ پہلے سے بھی بڑھ کر یاد آتے ہیں
-
موضوع : یاد
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
خو سمجھ میں نہیں آتی ترے دیوانوں کی
دامنوں کی نہ خبر ہے نہ گریبانوں کی
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
غربت کی صبح میں بھی نہیں ہے وہ روشنی
جو روشنی کہ شام سواد وطن میں تھا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ