Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Hasrat Mohani's Photo'

حسرتؔ موہانی

1878 - 1951 | دلی, انڈیا

مجاہد آزادی اور آئین ساز اسمبلی کے رکن ، ’انقلاب زندہ باد‘ کا نعرہ دیا ، شری کرشن کے معتقد ، اپنی غزل ’ چپکے چپکے رات دن آنسو بہانا یاد ہے‘ کے لئے مشہور

مجاہد آزادی اور آئین ساز اسمبلی کے رکن ، ’انقلاب زندہ باد‘ کا نعرہ دیا ، شری کرشن کے معتقد ، اپنی غزل ’ چپکے چپکے رات دن آنسو بہانا یاد ہے‘ کے لئے مشہور

حسرتؔ موہانی کے اشعار

68.5K
Favorite

باعتبار

وفا تجھ سے اے بے وفا چاہتا ہوں

مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں

آئینے میں وہ دیکھ رہے تھے بہار حسن

آیا مرا خیال تو شرما کے رہ گئے

شعر دراصل ہیں وہی حسرتؔ

سنتے ہی دل میں جو اتر جائیں

کٹ گئی احتیاط عشق میں عمر

ہم سے اظہار مدعا نہ ہوا

ملتے ہیں اس ادا سے کہ گویا خفا نہیں

کیا آپ کی نگاہ سے ہم آشنا نہیں

کیا بلا تھی ادائے پرسش یار

مجھ سے اظہار مدعا نہ ہوا

برق کو ابر کے دامن میں چھپا دیکھا ہے

ہم نے اس شوخ کو مجبور حیا دیکھا ہے

دیکھا کیے وہ مست نگاہوں سے بار بار

جب تک شراب آئی کئی دور ہو گئے

آنکھ اس کی جو فتنہ بار اٹھی

ہر نظر الاماں پکار اٹھی

شکوۂ غم ترے حضور کیا

ہم نے بے شک بڑا قصور کیا

ایسے بگڑے کہ پھر جفا بھی نہ کی

دشمنی کا بھی حق ادا نہ ہوا

رعنائی خیال کو ٹھہرا دیا گناہ

واعظ بھی کس قدر ہے مذاق سخن سے دور

حسرتؔ کی بھی قبول ہو متھرا میں حاضری

سنتے ہیں عاشقوں پہ تمہارا کرم ہے آج

ہم کیا کریں اگر نہ تری آرزو کریں

دنیا میں اور بھی کوئی تیرے سوا ہے کیا

بہاریں ہم کو بھولیں یاد اتنا ہے کہ گلشن میں

گریباں چاک کرنے کا بھی اک ہنگام آیا تھا

دعوئ عاشقی ہے تو حسرتؔ کرو نباہ

یہ کیا کے ابتدا ہی میں گھبرا کے رہ گئے

حسرتؔ جو سن رہے ہیں وہ اہل وفا کا حال

اس میں بھی کچھ فریب تری داستاں کے ہیں

سبھی کچھ ہو چکا ان کا ہمارا کیا رہا حسرتؔ

نہ دیں اپنا نہ دل اپنا نہ جاں اپنی نہ تن اپنا

رات دن نامہ و پیغام کہاں تک دو گے

صاف کہہ دیجئے ملنا ہمیں منظور نہیں

کبھی کی تھی جو اب وفا کیجئے گا

مجھے پوچھ کر آپ کیا کیجئے گا

پھر اور تغافل کا سبب کیا ہے خدایا

میں یاد نہ آؤں انہیں ممکن ہی نہیں ہے

آپ کو آتا رہا میرے ستانے کا خیال

صلح سے اچھی رہی مجھ کو لڑائی آپ کی

قفس میں ہو دل بلبل شہید جلوۂ گل

خزاں نے جو نہ کیا تھا وہ اب بہار کرے

چھیڑا ہے دست شوق نے مجھ سے خفا ہیں وہ

گویا کہ اپنے دل پہ مجھے اختیار ہے

بدگماں آپ ہیں کیوں آپ سے شکوہ ہے کسے

جو شکایت ہے ہمیں گردش ایام سے ہے

خندۂ‌ اہل جہاں کی مجھے پروا کیا ہے

تم بھی ہنستے ہو مرے حال پہ رونا ہے یہی

اقرار ہے کہ دل سے تمہیں چاہتے ہیں ہم

کچھ اس گناہ کی بھی سزا ہے تمہارے پاس

چھیڑ ناحق نہ اے نسیم بہار

سیر گل کا یہاں کسے ہے دماغ

نہ ہو ابھی مگر آخر تو قدر ہوگی مری

کھلے گا حال غلام آپ پر غلام کے بعد

ہم جور پرستوں پہ گماں ترک وفا کا

یہ وہم کہیں تم کو گنہ گار نہ کر دے

کہاں ہم کہاں وصل جاناں کی حسرتؔ

بہت ہے انہیں اک نظر دیکھ لینا

پیغام حیات جاوداں تھا

ہر نغمۂ کرشن بانسری کا

چھپ نہیں سکتی چھپانے سے محبت کی نظر

پڑ ہی جاتی ہے رخ یار پہ حسرت کی نظر

جبیں پر سادگی نیچی نگاہیں بات میں نرمی

مخاطب کون کر سکتا ہے تم کو لفظ قاتل سے

اس نا خدا کے ظلم و ستم ہائے کیا کروں

کشتی مری ڈبوئی ہے ساحل کے آس پاس

غم آرزو کا حسرتؔ سبب اور کیا بتاؤں

مری ہمتوں کی پستی مرے شوق کی بلندی

مجھ کو دیکھو مرے مرنے کی تمنا دیکھو

پھر بھی ہے تم کو مسیحائی کا دعویٰ دیکھو

منحصر وقت مقرر پہ ملاقات ہوئی

آج یہ آپ کی جانب سے نئی بات ہوئی

واقف ہیں خوب آپ کے طرز جفا سے ہم

اظہار التفات کی زحمت نہ کیجیے

جو اور کچھ ہو تری دید کے سوا منظور

تو مجھ پہ خواہش جنت حرام ہو جائے

دیکھنے آئے تھے وہ اپنی محبت کا اثر

کہنے کو یہ ہے کہ آئے ہیں عیادت کر کے

شام ہو یا کہ سحر یاد انہیں کی رکھنی

دن ہو یا رات ہمیں ذکر انہیں کا کرنا

ان کو یاں وعدے پہ آ لینے دے اے ابر بہار

جس قدر چاہنا پھر بعد میں برسا کرنا

بے زبانی ترجمان شوق بے حد ہو تو ہو

ورنہ پیش یار کام آتی ہے تقریریں کہیں

وصل کی بنتی ہیں ان باتوں سے تدبیریں کہیں

آرزوؤں سے پھرا کرتی ہیں تقدیریں کہیں

التفات یار تھا اک خواب آغاز وفا

سچ ہوا کرتی ہیں ان خوابوں کی تعبیریں کہیں

نہیں آتی تو یاد ان کی مہینوں تک نہیں آتی

مگر جب یاد آتے ہیں تو اکثر یاد آتے ہیں

حقیقت کھل گئی حسرتؔ ترے ترک محبت کی

تجھے تو اب وہ پہلے سے بھی بڑھ کر یاد آتے ہیں

خو سمجھ میں نہیں آتی ترے دیوانوں کی

دامنوں کی نہ خبر ہے نہ گریبانوں کی

غربت کی صبح میں بھی نہیں ہے وہ روشنی

جو روشنی کہ شام سواد وطن میں تھا

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے