Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Josh Malihabadi's Photo'

جوش ملیح آبادی

1898 - 1982 | اسلام آباد, پاکستان

سب سے شعلہ مزاج ترقی پسند شاعر، شاعر انقلاب کے طور پر معروف

سب سے شعلہ مزاج ترقی پسند شاعر، شاعر انقلاب کے طور پر معروف

جوش ملیح آبادی کے اشعار

32.7K
Favorite

باعتبار

وہاں سے ہے مری ہمت کی ابتدا واللہ

جو انتہا ہے ترے صبر آزمانے کی

ملے جو وقت تو اے رہرو رہ اکسیر

حقیر خاک سے بھی ساز باز کرتا جا

کام ہے میرا تغیر نام ہے میرا شباب

میرا نعرہ انقلاب و انقلاب و انقلاب

محفل عشق میں وہ نازش دوراں آیا

اے گدا خواب سے بیدار کہ سلطاں آیا

آڑے آیا نہ کوئی مشکل میں

مشورے دے کے ہٹ گئے احباب

گزر رہا ہے ادھر سے تو مسکراتا جا

چراغ مجلس روحانیاں جلاتا جا

شباب رفتہ کے قدم کی چاپ سن رہا ہوں میں

ندیم عہد شوق کی سنائے جا کہانیاں

اس دل میں ترے حسن کی وہ جلوہ گری ہے

جو دیکھے ہے کہتا ہے کہ شیشے میں پری ہے

ہم گئے تھے اس سے کرنے شکوۂ درد فراق

مسکرا کر اس نے دیکھا سب گلہ جاتا رہا

انسان کے لہو کو پیو اذن عام ہے

انگور کی شراب کا پینا حرام ہے

ہاں آسمان اپنی بلندی سے ہوشیار

اب سر اٹھا رہے ہیں کسی آستاں سے ہم

اب تک نہ خبر تھی مجھے اجڑے ہوئے گھر کی

وہ آئے تو گھر بے سر و ساماں نظر آیا

ہم ایسے اہل نظر کو ثبوت حق کے لیے

اگر رسول نہ ہوتے تو صبح کافی تھی

حد ہے اپنی طرف نہیں میں بھی

اور ان کی طرف خدائی ہے

دنیا نے فسانوں کو بخشی افسردہ حقائق کی تلخی

اور ہم نے حقائق کے نقشے میں رنگ بھرا افسانوں کا

تبسم کی سزا کتنی کڑی ہے

گلوں کو کھل کے مرجھانا پڑا ہے

اب اے خدا عنایت بے جا سے فائدہ

مانوس ہو چکے ہیں غم جاوداں سے ہم

ذرا آہستہ لے چل کاروان کیف و مستی کو

کہ سطح ذہن عالم سخت نا ہموار ہے ساقی

ایک دن کہہ لیجیے جو کچھ ہے دل میں آپ کے

ایک دن سن لیجیے جو کچھ ہمارے دل میں ہے

میرے رونے کا جس میں قصہ ہے

عمر کا بہترین حصہ ہے

اتنا مانوس ہوں فطرت سے کلی جب چٹکی

جھک کے میں نے یہ کہا مجھ سے کچھ ارشاد کیا؟

بگاڑ کر بنائے جا ابھار کر مٹائے جا

کہ میں ترا چراغ ہوں جلائے جا بجھائے جا

پہچان گیا سیلاب ہے اس کے سینے میں ارمانوں کا

دیکھا جو سفینے کو میرے جی چھوٹ گیا طوفانوں کا

اب دل کا سفینہ کیا ابھرے طوفاں کی ہوائیں ساکن ہیں

اب بحر سے کشتی کیا کھیلے موجوں میں کوئی گرداب نہیں

کشتیٔ مے کو حکم روانی بھی بھیج دو

جب آگ بھیج دی ہے تو پانی بھی بھیج دو

فغاں کہ مجھ غریب کو حیات کا یہ حکم ہے

سمجھ ہر ایک راز کو مگر فریب کھائے جا

آپ سے ہم کو رنج ہی کیسا

مسکرا دیجئے صفائی سے

اس نے وعدہ کیا ہے آنے کا

رنگ دیکھو غریب خانے کا

کسی کا عہد جوانی میں پارسا ہونا

قسم خدا کی یہ توہین ہے جوانی کی

دل کی چوٹوں نے کبھی چین سے رہنے نہ دیا

جب چلی سرد ہوا میں نے تجھے یاد کیا

اس کا رونا نہیں کیوں تم نے کیا دل برباد

اس کا غم ہے کہ بہت دیر میں برباد کیا

وہ کریں بھی تو کن الفاظ میں تیرا شکوہ

جن کو تیری نگہ لطف نے برباد کیا

مجھ کو تو ہوش نہیں تم کو خبر ہو شاید

لوگ کہتے ہیں کہ تم نے مجھے برباد کیا

سوز غم دے کے مجھے اس نے یہ ارشاد کیا

جا تجھے کشمکش دہر سے آزاد کیا

اللہ رے حسن دوست کی آئینہ داریاں

اہل نظر کو نقش بہ دیوار کر دیا

بادباں ناز سے لہرا کے چلی باد مراد

کارواں عید منا قافلہ سالار آیا

ادھر تیری مشیت ہے ادھر حکمت رسولوں کی

الٰہی آدمی کے باب میں کیا حکم ہوتا ہے

ہاں کون پوچھتا ہے خوشی کا نہفتہ راز

پھر غم کا بار دل پہ اٹھائے ہوئے ہیں ہم

صرف اتنے کے لیے آنکھیں ہمیں بخشی گئیں

دیکھیے دنیا کے منظر اور بہ عبرت دیکھیے

نقش خیال دل سے مٹایا نہیں ہنوز

بے درد میں نے تجھ کو بھلایا نہیں ہنوز

کوئی آیا تری جھلک دیکھی

کوئی بولا سنی تری آواز

ملا جو موقع تو روک دوں گا جلالؔ روز حساب تیرا

پڑھوں گا رحمت کا وہ قصیدہ کہ ہنس پڑے گا عذاب تیرا

اک نہ اک ظلمت سے جب وابستہ رہنا ہے تو جوشؔ

زندگی پر سایۂ زلف پریشاں کیوں نہ ہو

ہر ایک کانٹے پہ سرخ کرنیں ہر اک کلی میں چراغ روشن

خیال میں مسکرانے والے ترا تبسم کہاں نہیں ہے

جتنے گدا نواز تھے کب کے گزر چکے

اب کیوں بچھائے بیٹھے ہیں ہم بوریا نہ پوچھ

ثبوت ہے یہ محبت کی سادہ لوحی کا

جب اس نے وعدہ کیا ہم نے اعتبار کیا

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے