Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Ada Jafarey's Photo'

ادا جعفری

1924 - 2015 | کراچی, پاکستان

اہم پاکستانی شاعرہ، اپنی نرم وشگفتہ شعری آواز کے لیے معروف

اہم پاکستانی شاعرہ، اپنی نرم وشگفتہ شعری آواز کے لیے معروف

ادا جعفری کے اشعار

24K
Favorite

باعتبار

آ دیکھ کہ میرے آنسوؤں میں

یہ کس کا جمال آ گیا ہے

خزینے جاں کے لٹانے والے دلوں میں بسنے کی آس لے کر

سنا ہے کچھ لوگ ایسے گزرے جو گھر سے آئے نہ گھر گئے ہیں

جس کی جانب اداؔ نظر نہ اٹھی

حال اس کا بھی میرے حال سا تھا

صدیوں سے مرے پاؤں تلے جنت‌ انساں

میں جنت‌ انساں کا پتا ڈھونڈھ رہی ہوں

مستی بھری ہواؤں کے جھونکے نہ پوچھیے

فطرت ہے آج ساغر و مینا لیے ہوئے

اگر سچ اتنا ظالم ہے تو ہم سے جھوٹ ہی بولو

ہمیں آتا ہے پت جھڑ کے دنوں گل بار ہو جانا

بولتے ہیں دلوں کے سناٹے

شور سا یہ جو چار سو ہے ابھی

ہونٹوں پہ کبھی ان کے مرا نام ہی آئے

آئے تو سہی بر سر الزام ہی آئے

کن منزلوں لٹے ہیں محبت کے قافلے

انساں زمیں پہ آج غریب الوطن سا ہے

مزاج و مرتبۂ چشم نم کو پہچانے

جو تجھ کو دیکھ کے آئے وہ ہم کو پہچانے

کوئی بات خواب و خیال کی جو کرو تو وقت کٹے گا اب

ہمیں موسموں کے مزاج پر کوئی اعتبار کہاں رہا

نہ ہوتا خانماں تو خانماں برباد کیوں ہوتی

اداؔ یہ رنگ لائی آرزوئے آشیاں میری

پیام زندگیٔ نو نہ بن سکیں صد حیف

یہ اودی اودی گھٹائیں یہ بھیگی بھیگی بہار

ریت بھی اپنی رت بھی اپنی

دل رسم دنیا کیا جانے

لوگ بے مہر نہ ہوتے ہوں گے

وہم سا دل کو ہوا تھا شاید

بجھی ہوئی ہیں نگاہیں غبار ہے کہ دھواں

وہ راستہ ہے کہ اپنا بھی نقش پا نہ ملے

کٹتا کہاں طویل تھا راتوں کا سلسلہ

سورج مری نگاہ کی سچائیوں میں تھا

ہاتھ کانٹوں سے کر لیے زخمی

پھول بالوں میں اک سجانے کو

خلش تیر بے پناہ گئی

لیجئے ان سے رسم و راہ گئی

متاع درد پرکھنا تو بس کی بات نہیں

جو تجھ کو دیکھ کے آئے وہ ہم کو پہچانے

یہ پھر کس نے دزدیدہ نظروں سے دیکھا

مچلنے لگے سینکڑوں شوخ ارماں

بس ایک بار منایا تھا جشن محرومی

پھر اس کے بعد کوئی ابتلا نہیں آئی

آپ ہی مرکز نگاہ رہے

جانے کو چار سو نگاہ گئی

وہ بے نقاب سامنے آئیں بھی اب تو کیا

دیوانگی کو ہوش کی فرصت نہیں رہی

پھر نگاہوں کو آزما لیجے

پھر وفاؤں پہ اشتباہ رہے

جو چراغ سارے بجھا چکے انہیں انتظار کہاں رہا

یہ سکوں کا دور شدید ہے کوئی بے قرار کہاں رہا

ہوا یوں کہ پھر مجھے زندگی نے بسر کیا

کوئی دن تھے جب مجھے ہر نظارہ حسیں ملا

کوئی طائر ادھر نہیں آتا

کیسی تقصیر اس مکاں سے ہوئی

وہ تشنگی تھی کہ شبنم کو ہونٹ ترسے ہیں

وہ آب ہوں کہ مقید گہر گہر میں رہوں

تو نے مژگاں اٹھا کے دیکھا بھی

شہر خالی نہ تھا مکینوں سے

شاید کسی نے یاد کیا ہے ہمیں اداؔ

کیوں ورنہ اشک مائل طوفاں ہے آج پھر

کس کو خبر ہیں کتنے بہکتے ہوئے قدم

مخمور انکھڑیوں کا سہارا لیے ہوئے

اور کچھ دیر لب پہ آہ رہے

اور کچھ ان سے رسم و راہ رہے

ورنہ انسان مر گیا ہوتا

کوئی بے نام جستجو ہے ابھی

کانٹا سا جو چبھا تھا وہ لو دے گیا ہے کیا

گھلتا ہوا لہو میں یہ خورشید سا ہے کیا

سب سے بڑا فریب ہے خود زندگی اداؔ

اس حیلہ جو کے ساتھ ہیں ہم بھی بہانہ ساز

یہ کس نے نقاب اپنے رخ سے الٹ دی

گلے مل رہے ہیں بہم کفر و ایماں

سجدے تڑپ رہے ہیں جبین نیاز میں

سر ہیں کسی کی زلف کا سودا لیے ہوئے

وہ کیسی آس تھی ادا جو کو بہ کو لیے پھری

وہ کچھ تو تھا جو دل کو آج تک کبھو ملا نہیں

خامشی سے ہوئی فغاں سے ہوئی

ابتدا رنج کی کہاں سے ہوئی

گل پر کیا کچھ بیت گئی ہے

البیلا جھونکا کیا جانے

ہزار کوس نگاہوں سے دل کی منزل تک

کوئی قریب سے دیکھے تو ہم کو پہچانے

جو دل میں تھی نگاہ سی نگاہ میں کرن سی تھی

وہ داستاں الجھ گئی وضاحتوں کے درمیاں

ادھر بھی اک نظر اے جلوۂ رنگین و بیگانہ

طلوع ماہ کا ہے منتظر میرا سیہ خانہ

بے نوا ہیں کہ تجھے صوت و نوا بھی دی ہے

جس نے دل توڑ دیئے اس کی دعا بھی دی ہے

میں آندھیوں کے پاس تلاش صبا میں ہوں

تم مجھ سے پوچھتے ہو مرا حوصلہ ہے کیا

ابھی صحیفۂ جاں پر رقم بھی کیا ہوگا

ابھی تو یاد بھی بے ساختہ نہیں آئی

ہمارے شہر کے لوگوں کا اب احوال اتنا ہے

کبھی اخبار پڑھ لینا کبھی اخبار ہو جانا

امید کا گھروندا پل میں گرا دیا ہے

تجھ کو بھی کیا کسی نے دل سے بھلا دیا ہے

آمادۂ کرم ہے یہ کس کی نگاہ ناز

دل شکوۂ ستم سے پشیماں ہے آج کیوں

Recitation

بولیے