عباس تابش کے شعر
یہ محبت کی کہانی نہیں مرتی لیکن
لوگ کردار نبھاتے ہوئے مر جاتے ہیں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
ایک مدت سے مری ماں نہیں سوئی تابشؔ
میں نے اک بار کہا تھا مجھے ڈر لگتا ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
ہم ہیں سوکھے ہوئے تالاب پہ بیٹھے ہوئے ہنس
جو تعلق کو نبھاتے ہوئے مر جاتے ہیں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
مدت کے بعد خواب میں آیا تھا میرا باپ
اور اس نے مجھ سے اتنا کہا خوش رہا کرو
ہجر کو حوصلہ اور وصل کو فرصت درکار
اک محبت کے لیے ایک جوانی کم ہے
جس سے پوچھیں ترے بارے میں یہی کہتا ہے
خوب صورت ہے وفادار نہیں ہو سکتا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
تیری روح میں سناٹا ہے اور مری آواز میں چپ
تو اپنے انداز میں چپ ہے میں اپنے انداز میں چپ
فقط مال و زر دیوار و در اچھا نہیں لگتا
جہاں بچے نہیں ہوتے وہ گھر اچھا نہیں لگتا
-
موضوع : بچپن شاعری
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
جھونکے کے ساتھ چھت گئی دستک کے ساتھ در گیا
تازہ ہوا کے شوق میں میرا تو سارا گھر گیا
گھر پہنچتا ہے کوئی اور ہمارے جیسا
ہم ترے شہر سے جاتے ہوئے مر جاتے ہیں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
چاند چہرے مجھے اچھے تو بہت لگتے ہیں
عشق میں اس سے کروں گا جسے اردو آئے
بس ایک موڑ مری زندگی میں آیا تھا
پھر اس کے بعد الجھتی گئی کہانی میری
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
مجھ سے تو دل بھی محبت میں نہیں خرچ ہوا
تم تو کہتے تھے کہ اس کام میں گھر لگتا ہے
محبت ایک دم دکھ کا مداوا کر نہیں دیتی
یہ تتلی بیٹھتی ہے زخم پر آہستہ آہستہ
عشق کر کے بھی کھل نہیں پایا
تیرا میرا معاملہ کیا ہے
میں اپنے آپ میں گہرا اتر گیا شاید
مرے سفر سے الگ ہو گئی روانی مری
-
موضوع : سفر
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
آنکھوں تک آ سکی نہ کبھی آنسوؤں کی لہر
یہ قافلہ بھی نقل مکانی میں کھو گیا
بولتا ہوں تو مرے ہونٹ جھلس جاتے ہیں
اس کو یہ بات بتانے میں بڑی دیر لگی
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
میرے سینے سے ذرا کان لگا کر دیکھو
سانس چلتی ہے کہ زنجیر زنی ہوتی ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
میں جس سکون سے بیٹھا ہوں اس کنارے پر
سکوں سے لگتا ہے میرا قیام آخری ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
اک محبت ہی پہ موقوف نہیں ہے تابشؔ
کچھ بڑے فیصلے ہو جاتے ہیں نادانی میں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
تری محبت میں گمرہی کا عجب نشہ تھا
کہ تجھ تک آتے ہوئے خدا تک پہنچ گئے ہیں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
ابھی تو گھر میں نہ بیٹھیں کہو بزرگوں سے
ابھی تو شہر کے بچے سلام کرتے ہیں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
تو بھی اے شخص کہاں تک مجھے برداشت کرے
بار بار ایک ہی چہرہ نہیں دیکھا جاتا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
تم مانگ رہے ہو مرے دل سے مری خواہش
بچہ تو کبھی اپنے کھلونے نہیں دیتا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
ورنہ کوئی کب گالیاں دیتا ہے کسی کو
یہ اس کا کرم ہے کہ تجھے یاد رہا میں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
وقت لفظوں سے بنائی ہوئی چادر جیسا
اوڑھ لیتا ہوں تو سب خواب ہنر لگتا ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
ان آنکھوں میں کودنے والو تم کو اتنا دھیان رہے
وہ جھیلیں پایاب ہیں لیکن ان کی تہہ پتھریلی ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
پھر اس کے بعد یہ بازار دل نہیں لگنا
خرید لیجئے صاحب غلام آخری ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
پس غبار بھی اڑتا غبار اپنا تھا
ترے بہانے ہمیں انتظار اپنا تھا
بیٹھے رہنے سے تو لو دیتے نہیں یہ جسم و جاں
جگنوؤں کی چال چلیے روشنی بن جائیے
میں اسے دیکھ کے لوٹا ہوں تو کیا دیکھتا ہوں
شہر کا شہر مجھے دیکھنے آیا ہوا ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
یہ تو اب عشق میں جی لگنے لگا ہے کچھ کچھ
اس طرف پہلے پہل گھیر کے لایا گیا میں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
ملتی نہیں ہے ناؤ تو درویش کی طرح
خود میں اتر کے پار اتر جانا چاہئے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
ہمارے جیسے وہاں کس شمار میں ہوں گے
کہ جس قطار میں مجنوں کا نام آخری ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
التجائیں کر کے مانگی تھی محبت کی کسک
بے دلی نے یوں غم نایاب واپس کر دیا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
موسم تمہارے ساتھ کا جانے کدھر گیا
تم آئے اور بور نہ آیا درخت پر
میں ہوں اس شہر میں تاخیر سے آیا ہوا شخص
مجھ کو اک اور زمانے میں بڑی دیر لگی
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
ہمیں تو اس لیے جائے نماز چاہئے ہے
کہ ہم وجود سے باہر قیام کرتے ہیں
-
موضوع : وجود
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
یہ موج موج بنی کس کی شکل سی تابشؔ
یہ کون ڈوب کے بھی لہر لہر پھیل گیا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے