Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Habib Jalib's Photo'

حبیب جالب

1928 - 1993 | لاہور, پاکستان

مقبول انقلابی پاکستانی شاعر ، سیاسی جبر کی مخالفت کے لئے مشہور

مقبول انقلابی پاکستانی شاعر ، سیاسی جبر کی مخالفت کے لئے مشہور

حبیب جالب کے اشعار

20.9K
Favorite

باعتبار

ان کے آنے کے بعد بھی جالبؔ

دیر تک ان کا انتظار رہا

اک تری یاد سے اک تیرے تصور سے ہمیں

آ گئے یاد کئی نام حسیناؤں کے

امن تھا پیار تھا محبت تھا

رنگ تھا نور تھا نوا تھا فراق

اک عمر سنائیں تو حکایت نہ ہو پوری

دو روز میں ہم پر جو یہاں بیت گئی ہے

کچھ اور بھی ہیں کام ہمیں اے غم جاناں

کب تک کوئی الجھی ہوئی زلفوں کو سنوارے

آنے والی برکھا دیکھیں کیا دکھلائے آنکھوں کو

یہ برکھا برساتے دن تو بن پریتم بیکار گئے

یہ اور بات تیری گلی میں نہ آئیں ہم

لیکن یہ کیا کہ شہر ترا چھوڑ جائیں ہم

کچھ لوگ خیالوں سے چلے جائیں تو سوئیں

بیتے ہوئے دن رات نہ یاد آئیں تو سوئیں

لاکھ کہتے رہیں ظلمت کو نہ ظلمت لکھنا

ہم نے سیکھا نہیں پیارے بہ اجازت لکھنا

اور سب بھول گئے حرف صداقت لکھنا

رہ گیا کام ہمارا ہی بغاوت لکھنا

تو آگ میں اے عورت زندہ بھی جلی برسوں

سانچے میں ہر اک غم کے چپ چاپ ڈھلی برسوں

کبھی جمہوریت یہاں آئے

یہی جالبؔ ہماری حسرت ہے

چھوڑ اس بات کو اے دوست کہ تجھ سے پہلے

ہم نے کس کس کو خیالوں میں بسائے رکھا

تمہیں تو ناز بہت دوستوں پہ تھا جالبؔ

الگ تھلگ سے ہو کیا بات ہو گئی پیارے

نہ تیری یاد نہ دنیا کا غم نہ اپنا خیال

عجیب صورت حالات ہو گئی پیارے

ایک ہمیں آوارہ کہنا کوئی بڑا الزام نہیں

دنیا والے دل والوں کو اور بہت کچھ کہتے ہیں

جن کی خاطر شہر بھی چھوڑا جن کے لیے بدنام ہوئے

آج وہی ہم سے بیگانے بیگانے سے رہتے ہیں

دل کی بات لبوں پر لا کر اب تک ہم دکھ سہتے ہیں

ہم نے سنا تھا اس بستی میں دل والے بھی رہتے ہیں

لوگ ڈرتے ہیں دشمنی سے تری

ہم تری دوستی سے ڈرتے ہیں

شعر سے شاعری سے ڈرتے ہیں

کم نظر روشنی سے ڈرتے ہیں

جن کی یادوں سے روشن ہیں میری آنکھیں

دل کہتا ہے ان کو بھی میں یاد آتا ہوں

اس ستم گر کی حقیقت ہم پہ ظاہر ہو گئی

ختم خوش فہمی کی منزل کا سفر بھی ہو گیا

دنیا تو چاہتی ہے یونہی فاصلے رہیں

دنیا کے مشوروں پہ نہ جا اس گلی میں چل

پا سکیں گے نہ عمر بھر جس کو

جستجو آج بھی اسی کی ہے

اپنی تو داستاں ہے بس اتنی

غم اٹھائے ہیں شاعری کی ہے

دشمنوں نے جو دشمنی کی ہے

دوستوں نے بھی کیا کمی کی ہے

تم سے پہلے وہ جو اک شخص یہاں تخت نشیں تھا

اس کو بھی اپنے خدا ہونے پہ اتنا ہی یقیں تھا

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے