خواجہ محمد وزیر کے اشعار
زر دیا زور دیا مال دیا گنج دیے
اے فلک کون سے راحت کے عوض رنج دیے
کیا ہے ہرجائی حسینان جہاں ساری ہیں
یہ وہ اختر ہیں کہ ثابت نہیں سیاری ہیں
ان آنکھوں میں صانع نے بھرے کوٹ کے موتی
قسمت یہ ہماری ہے کہ اشکوں سے بھری آنکھ
حال پوچھو نہ مرے رونے کا بس جانے دو
ابھی رومال نچوڑوں گا تو طوفاں ہوگا
بت بھی نہ بھولیں یاد خدا کی بھی کیجیے
پڑھیے نماز کر کے وضو آب گنگ سے
سختیٔ ایام دوڑے آتی ہے پتھر لیے
کیا مرا نخل تمنا بارور ہونے لگا
وہ زخم لگا ہے کہ دکھائی نہیں دیتا
درکار ہوا مرہم نایاب کا پھاہا
ہجر میں اک ماہ کے آنسو ہمارے گر پڑے
آسماں ٹوٹا شب فرقت ستارے گر پڑے
خاک میں مل جائے وہ چشمہ نہ جس میں آب ہو
پھوٹ جائے آنکھ اگر موقوف رونا ہو گیا
پھول جب جھڑنے لگے رنگیں بیانی سے مری
رہ گئی حیرت سے بلبل کھول کر منقار کو
اپنے کوچے میں مجھے رونے تو دے اے رشک گل
باغباں پانی ہمیشہ دیتے ہیں گلزار کو
چپ رہ کے گفتگو ہی سے پڑتا ہے تفرقہ
ہوتے ہیں دونو ہونٹ جدا اک صدا کے ساتھ
خود بہ خود اپنا جنازہ ہے رواں
ہم یہ کس کے کشتۂ رفتار ہیں
یوں پھر رہے ہیں جیسے کوئی بات ہی نہیں
آلودہ میرے خون سے داماں کیے ہوئے
زمیں بھی نکلی جاتی ہے مری پاؤں کے نیچے سے
مجھے مشکل ہوا ہے ساتھ دینا اپنے منزل کا
اے بتو در پردہ تم سے زاہدوں کو بھی ہے عشق
صورت تسبیح پنہاں رکھتے ہیں زنار کو
دیکھ پچھتائے گا او بت مرے ترسانے سے
اٹھ کے کعبے کو چلا جاؤں گا بت خانے سے
آئیں گے وقت خزاں چھوڑ دے آئی ہے بہار
لے لے صیاد قسم رکھ دے گلستاں سر پر
پھر وہی ہم تھے وہی تم تھے محبت تھے وہی
صلح کر لیتے اگر آنکھیں لڑانے کے لیے
جس کو آتے دیکھتا ہوں اے پری کہتا ہوں میں
آدمی بھیجا نہ ہو میرے بلانے کے لیے
میں نے یوسف جو کہا کیوں بگڑے
مول لے لے گا کوئی بک جائے گا؟
زخم کھاؤں یار کی تلوار کا پانی پیوں
غیر کا احساں نہ لوں آب و غذا کے واسطے
ہے سایہ چاندنی اور چاند مکھڑا
دوپٹا آسمان آسماں ہے
رہے یاں گردش اور جامہ دری
کاش لاتے نہ دست و پا ہم راہ
دیکھنا حسرت دیدار اسے کہتے ہیں
پھر گیا منہ تری جانب دم مردن اپنا
وو نہ آنکھوں سے ہو جدا یا رب
جب تلک میری آنکھ بند نہ ہو
ہو رہائی ضعف کے تاثیر سے
نکلیں ہم مثل صدا زنجیر سے
ایک کو دو کر دکھائے آئنہ
گر بنائیں آہن شمشیر سے
نہ پونچھو میرے آنسو تم نہ پونچھو
کہے گا کوئی تم کو خوشہ چیں ہے
بے تیرے مجھے دید کا کچھ شوق نہیں ہے
تو پردہ نشیں ہے تو نگہ گوشہ نشیں ہے
یار تنہا گھر میں ہے افسوس لیکن ہم نہیں
حور تو ہے گلشن فردوس میں آدم نہیں
ہاتھ دکھلا کے یہ بولا وہ مسلماں زادہ
ہو گیا دست نگر اب تو برہمن اپنا
داغ اس پہ کہاں تھے یہ گلی ہو کے پھرا ہے
بھیجا تھا جسے یہ وہ کبوتر تو نہیں ہے
کہیں عدو نہ کہیں مجھ کو دیکھ کر محتاج
یہ ان کے بندے ہیں جن کو کریم کہتے ہیں
وہ مجھ پہ مرنے لگے جو ہے میرے درپئے قتل
الٰہی اس کے سو اور انتقال نہیں
سلسلہ رکھتا ہے میرا کفر کچھ اسلام سے
ہیں کئی تسبیح کے دانے مری زنار میں
اس بت کافر کا زاہد نے بھی نام ایسا جپا
دانۂ تسبیح ہر اک رام دانا ہو گیا
ترے کوچے کی شاید راہ بھولی
صبا پھرتی ہے مضطر کو بہ کو آج
کیا اسی نے یہ کیا مطلع ابرو موزوں
تم جو کہتے ہو سخن گو ہے بڑی میری آنکھ
سب منجم کہتے ہیں اب ہے برابر رات دن
سر سے پا تک دیکھ کر زلف دراز یار کو
مرا کچھ حال کہہ کر ذکر مجنوں کرتے ہیں عاشق
کتاب عاشقی میں اپنا قصہ پیش خوانی ہے
کاہیدہ مجھ کو دیکھ کے وہ غیرت پری
کہتا ہے آدمی ہو کہ مردم گیاہ ہو
شب کو جاتے ہو ساتھ لو مشعل
کہیے تو ہو یہ دل جلا ہم راہ
ہے چشم نیم باز عجب خواب ناز ہے
فتنہ تو سو رہا ہے در فتنہ باز ہے
ساقیا ہجر میں کب ہے ہوس گفت و شنید
ساغر گوش سے مینائے زباں دور رہے
احوال مذاہب سے یہ ثابت ہوا ہم کو
اک بات ہے جس کا کئی صورت سے بیاں ہے
کیا دید کے قابل ترے کوچے کی زمیں ہے
ہر گام ہے نقش قدم رہ گزری آنکھ
دیکھا جسے بسمل کیا تاکا جسے مارا
اس آنکھ سے ڈریے جو خدا سے نہ ڈرے آنکھ