Mohammad Alvi's Photo'

محمد علوی

1927 - 2018 | احمد آباد, انڈیا

ممتاز ترین جدید شاعروں میں نمایاں۔ ساہتیہ اکادمی انعام یافتہ

ممتاز ترین جدید شاعروں میں نمایاں۔ ساہتیہ اکادمی انعام یافتہ

محمد علوی کے اشعار

27.3K
Favorite

باعتبار

دھوپ نے گزارش کی

ایک بوند بارش کی

روز اچھے نہیں لگتے آنسو

خاص موقعوں پہ مزا دیتے ہیں

آج پھر مجھ سے کہا دریا نے

کیا ارادہ ہے بہا لے جاؤں

اندھیرا ہے کیسے ترا خط پڑھوں

لفافے میں کچھ روشنی بھیج دے

اب تو چپ چاپ شام آتی ہے

پہلے چڑیوں کے شور ہوتے تھے

کچھ تو اس دل کو سزا دی جائے

اس کی تصویر ہٹا دی جائے

سردی میں دن سرد ملا

ہر موسم بے درد ملا

اپنا گھر آنے سے پہلے

اتنی گلیاں کیوں آتی ہیں

کبھی آنکھیں کتاب میں گم ہیں

کبھی گم ہیں کتاب آنکھوں میں

اچھے دن کب آئیں گے

کیا یوں ہی مر جائیں گے

آگ اپنے ہی لگا سکتے ہیں

غیر تو صرف ہوا دیتے ہیں

اس سے ملے زمانہ ہوا لیکن آج بھی

دل سے دعا نکلتی ہے خوش ہو جہاں بھی ہو

اس سے بچھڑتے وقت میں رویا تھا خوب سا

یہ بات یاد آئی تو پہروں ہنسا کیا

مانا کہ تو ذہین بھی ہے خوب رو بھی ہے

تجھ سا نہ میں ہوا تو بھلا کیا برا ہوا

ہائے وہ لوگ جو دیکھے بھی نہیں

یاد آئیں تو رلا دیتے ہیں

نظروں سے ناپتا ہے سمندر کی وسعتیں

ساحل پہ اک شخص اکیلا کھڑا ہوا

دیکھا تو سب کے سر پہ گناہوں کا بوجھ تھا

خوش تھے تمام نیکیاں دریا میں ڈال کر

اب نہ غالبؔ سے شکایت ہے نہ شکوہ میرؔ کا

بن گیا میں بھی نشانہ ریختہ کے تیر کا

میں اس کے بدن کی مقدس کتاب

نہایت عقیدت سے پڑھتا رہا

کمرے میں مزے کی روشنی ہو

اچھی سی کوئی کتاب دیکھوں

چھوڑ گیا مجھ کو علویؔ

شاید وہ جلدی میں تھا

نیا سال دیوار پر ٹانگ دے

پرانے برس کا کلنڈر گرا

موت بھی دور بہت دور کہیں پھرتی ہے

کون اب آ کے اسیروں کو رہائی دے گا

ابھی دو چار ہی بوندیں گریں ہیں

مگر موسم نشیلا ہو گیا ہے

غم بہت دن مفت کی کھاتا رہا

اب اسے دل سے نکالا چاہیئے

وہ جنگلوں میں درختوں پہ کودتے پھرنا

برا بہت تھا مگر آج سے تو بہتر تھا

ان دنوں گھر سے عجب رشتہ تھا

سارے دروازے گلے لگتے تھے

اک لڑکا تھا اک لڑکی تھی

آگے اللہ کی مرضی تھی

گھر میں کیا آیا کہ مجھ کو

دیواروں نے گھیر لیا ہے

اور بازار سے کیا لے جاؤں

پہلی بارش کا مزا لے جاؤں

دیکھا نہ ہوگا تو نے مگر انتظار میں

چلتے ہوئے سمے کو ٹھہرتے ہوئے بھی دیکھ

ارے یہ دل اور اتنا خالی

کوئی مصیبت ہی پال رکھیے

تھوڑی سردی ذرا سا نزلہ ہے

شاعری کا مزاج پتلا ہے

رات ملی تنہائی ملی اور جام ملا

گھر سے نکلے تو کیا کیا آرام ملا

میں خود کو مرتے ہوئے دیکھ کر بہت خوش ہوں

یہ ڈر بھی ہے کہ مری آنکھ کھل نہ جائے کہیں

چلا جاؤں گا جیسے خود کو تنہا چھوڑ کر علویؔ

میں اپنے آپ کو راتوں میں اٹھ کر دیکھ لیتا ہوں

رات پڑے گھر جانا ہے

صبح تلک مر جانا ہے

ایسا ہنگامہ نہ تھا جنگل میں

شہر میں آئے تو ڈر لگتا تھا

آنکھیں کھولو خواب سمیٹو جاگو بھی

علویؔ پیارے دیکھو سالا دن نکلا

کھڑکیوں سے جھانکتی ہے روشنی

بتیاں جلتی ہیں گھر گھر رات میں

بلا رہا تھا کوئی چیخ چیخ کر مجھ کو

کنویں میں جھانک کے دیکھا تو میں ہی اندر تھا

ہر وقت کھلتے پھول کی جانب تکا نہ کر

مرجھا کے پتیوں کو بکھرتے ہوئے بھی دیکھ

پرندے دور فضاؤں میں کھو گئے علویؔ

اجاڑ اجاڑ درختوں پہ آشیانے تھے

موت نہ آئی تو علویؔ

چھٹی میں گھر جائیں گے

گلدان میں گلاب کی کلیاں مہک اٹھیں

کرسی نے اس کو دیکھ کے آغوش وا کیا

آسمان پر جا پہنچوں

اللہ تیرا نام لکھوں

رکھتے ہو اگر آنکھ تو باہر سے نہ دیکھو

دیکھو مجھے اندر سے بہت ٹوٹ چکا ہوں

بچھڑتے وقت ایسا بھی ہوا ہے

کسی کی سسکیاں اچھی لگی ہیں

گاڑی آتی ہے لیکن آتی ہی نہیں

ریل کی پٹری دیکھ کے تھک جاتا ہوں میں

سامنے دیوار پر کچھ داغ تھے

غور سے دیکھا تو چہرے ہو گئے

Recitation

aah ko chahiye ek umr asar hote tak SHAMSUR RAHMAN FARUQI

Jashn-e-Rekhta | 2-3-4 December 2022 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate, New Delhi

GET YOUR FREE PASS
بولیے