Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Seemab Akbarabadi's Photo'

سیماب اکبرآبادی

1880 - 1951 | کراچی, پاکستان

ممتاز ترین قبل از جدید شاعروں میں نمایاں، سیکڑوں شاگردوں کے استاد

ممتاز ترین قبل از جدید شاعروں میں نمایاں، سیکڑوں شاگردوں کے استاد

سیماب اکبرآبادی کے اشعار

24.9K
Favorite

باعتبار

یہ شراب عشق اے سیمابؔ ہے پینے کی چیز

تند بھی ہے بد مزہ بھی ہے مگر اکسیر ہے

پریشاں ہونے والوں کو سکوں کچھ مل بھی جاتا ہے

پریشاں کرنے والوں کی پریشانی نہیں جاتی

خدا اور ناخدا مل کر ڈبو دیں یہ تو ممکن ہے

میری وجہ تباہی صرف طوفاں ہو نہیں سکتا

ہائے سیمابؔ اس کی مجبوری

جس نے کی ہو شباب میں توبہ

کہانی ہے تو اتنی ہے فریب خواب ہستی کی

کہ آنکھیں بند ہوں اور آدمی افسانہ ہو جائے

دل آفت زدہ کا مدعا کیا

شکستہ ساز کیا اس کی صدا کیا

روز کہتا ہوں کہ اب ان کو نہ دیکھوں گا کبھی

روز اس کوچے میں اک کام نکل آتا ہے

مری دیوانگی پر ہوش والے بحث فرمائیں

مگر پہلے انہیں دیوانہ بننے کی ضرورت ہے

بت کریں آرزو خدائی کی

شان تیری ہے کبریائی کی

سارے چمن کو میں تو سمجھتا ہوں اپنا گھر

جیسے چمن میں میرا کوئی آشیاں بنا

لہو سے میں نے لکھا تھا جو کچھ دیوار زنداں پر

وہ بجلی بن کے چمکا دامن صبح گلستاں پر

سیمابؔ دل حوادث دنیا سے بجھ گیا

اب آرزو بھی ترک تمنا سے کم نہیں

مری خاموشیوں پر دنیا مجھ کو طعن دیتی ہے

یہ کیا جانے کہ چپ رہ کر بھی کی جاتی ہیں تقریریں

اب وہاں دامن کشی کی فکر دامن گیر ہے

یہ مرے خواب محبت کی نئی تعبیر ہے

محبت میں اک ایسا وقت بھی آتا ہے انساں پر

ستاروں کی چمک سے چوٹ لگتی ہے رگ جاں پر

نشاط حسن ہو جوش وفا ہو یا غم عشق

ہمارے دل میں جو آئے وہ آرزو ہو جائے

مرکز پہ اپنے دھوپ سمٹتی ہے جس طرح

یوں رفتہ رفتہ تیرے قریب آ رہا ہوں میں

وہ دنیا تھی جہاں تم بند کرتے تھے زباں میری

یہ محشر ہے یہاں سننی پڑے گی داستاں میری

جب دل پہ چھا رہی ہوں گھٹائیں ملال کی

اس وقت اپنے دل کی طرف مسکرا کے دیکھ

میں دیکھتا ہوں آپ کو حد نگاہ تک

لیکن مری نگاہ کا کیا اعتبار ہے

ماضیٔ مرحوم کی ناکامیوں کا ذکر چھوڑ

زندگی کی فرصت باقی سے کوئی کام لے

یہ میری تیرہ نصیبی یہ سادگی یہ فریب

گری جو برق میں سمجھا چراغ خانہ ملا

حسن میں جب ناز شامل ہو گیا

ایک پیدا اور قاتل ہو گیا

گناہوں پر وہی انسان کو مجبور کرتی ہے

جو اک بے نام سی فانی سی لذت ہے گناہوں میں

صحرا سے بار بار وطن کون جائے گا

کیوں اے جنوں یہیں نہ اٹھا لاؤں گھر کو میں

تجھے دانستہ محفل میں جو دیکھا ہو تو مجرم ہوں

نظر آخر نظر ہے بے ارادہ اٹھ گئی ہوگی

تعجب کیا لگی جو آگ اے سیمابؔ سینے میں

ہزاروں دل میں انگارے بھرے تھے لگ گئی ہوگی

دیکھتے رہتے ہیں چھپ چھپ کے مرقع تیرا

کبھی آتی ہے ہوا بھی تو چھپا لیتے ہیں

رنگ بھرتے ہیں وفا کا جو تصور میں ترے

تجھ سے اچھی تری تصویر بنا لیتے ہیں

دل کی بساط کیا تھی نگاہ جمال میں

اک آئینہ تھا ٹوٹ گیا دیکھ بھال میں

دنیا ہے خواب حاصل دنیا خیال ہے

انسان خواب دیکھ رہا ہے خیال میں

وہ آئینہ ہو یا ہو پھول تارہ ہو کہ پیمانہ

کہیں جو کچھ بھی ٹوٹا میں یہی سمجھا مرا دل ہے

دیکھتے ہی دیکھتے دنیا سے میں اٹھ جاؤں گا

دیکھتی کی دیکھتی رہ جائے گی دنیا مجھے

ہے حصول آرزو کا راز ترک آرزو

میں نے دنیا چھوڑ دی تو مل گئی دنیا مجھے

غم مجھے حسرت مجھے وحشت مجھے سودا مجھے

ایک دل دے کر خدا نے دے دیا کیا کیا مجھے

کیا ڈھونڈھنے جاؤں میں کسی کو

اپنا مجھے خود پتا نہیں ہے

کیوں جام شراب ناب مانگوں

ساقی کی نظر میں کیا نہیں ہے

ہو گئے رخصت رئیسؔ و عالؔی و واصفؔ نثارؔ

رفتہ رفتہ آگرہ سیمابؔ سونا ہو گیا

برہمن کہتا تھا برہم شیخ بول اٹھا احد

حرف کے اک پھیر سے دونوں میں جھگڑا ہو گیا

منزل ملی مراد ملی مدعا ملا

سب کچھ مجھے ملا جو ترا نقش پا ملا

تیرے جلووں نے مجھے گھیر لیا ہے اے دوست

اب تو تنہائی کے لمحے بھی حسیں لگتے ہیں

چمک جگنو کی برق بے اماں معلوم ہوتی ہے

قفس میں رہ کے قدر آشیاں معلوم ہوتی ہے

کہانی میری روداد جہاں معلوم ہوتی ہے

جو سنتا ہے اسی کی داستاں معلوم ہوتی ہے

قفس کی تیلیوں میں جانے کیا ترکیب رکھی ہے

کہ ہر بجلی قریب آشیاں معلوم ہوتی ہے

عمر دراز مانگ کے لائی تھی چار دن

دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظار میں

خلوص دل سے سجدہ ہو تو اس سجدے کا کیا کہنا

وہیں کعبہ سرک آیا جبیں ہم نے جہاں رکھ دی

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے