اظہار پر اشعار
شاعری میں اظہار اپنی
بیشتر صورتوں میں عشق کا اظہار ہے ۔ اظہار اور اس کے متعلقات کو موضوع بنانے والی شاعری اس لئے زیادہ دلچسپ ہے کہ وہ اظہار سے پہلے کی کشمکش کو موضوع بناتی ہے ۔ یہ کشمکش کبھی اظہار میں تبدیل ہو جاتی ہے اور کبھی اور زیادہ گہری ہو کر عاشق کیلئے ایک نیا روگ بن جاتی ہے ۔ ان لمحوں کو ہم سب نے جیا ہے اس لئے یہ شاعری بھی ہم سب کی ہے ۔ ہمارا یہ چھوٹا سا انتخاب حاضر ہے ۔
مجھے اب تم سے ڈر لگنے لگا ہے
تمہیں مجھ سے محبت ہو گئی کیا
یہ کہنا تھا ان سے محبت ہے مجھ کو
یہ کہنے میں مجھ کو زمانے لگے ہیں
-
موضوعات : عشقاور 1 مزید
عشق کے اظہار میں ہر چند رسوائی تو ہے
پر کروں کیا اب طبیعت آپ پر آئی تو ہے
ایک دن کہہ لیجیے جو کچھ ہے دل میں آپ کے
ایک دن سن لیجیے جو کچھ ہمارے دل میں ہے
حال دل کیوں کر کریں اپنا بیاں اچھی طرح
روبرو ان کے نہیں چلتی زباں اچھی طرح
زباں خاموش مگر نظروں میں اجالا دیکھا
اس کا اظہار محبت بھی نرالا دیکھا
سب کچھ ہم ان سے کہہ گئے لیکن یہ اتفاق
کہنے کی تھی جو بات وہی دل میں رہ گئی
تجھ سے کس طرح میں اظہار تمنا کرتا
لفظ سوجھا تو معانی نے بغاوت کر دی
اور اس سے پہلے کہ ثابت ہو جرم خاموشی
ہم اپنی رائے کا اظہار کرنا چاہتے ہیں
دل پہ کچھ اور گزرتی ہے مگر کیا کیجے
لفظ کچھ اور ہی اظہار کئے جاتے ہیں
-
موضوع : دل
مجھ سے نفرت ہے اگر اس کو تو اظہار کرے
کب میں کہتا ہوں مجھے پیار ہی کرتا جائے
-
موضوع : اداسی
اظہار عشق اس سے نہ کرنا تھا شیفتہؔ
یہ کیا کیا کہ دوست کو دشمن بنا دیا
زبان دل کی حقیقت کو کیا بیاں کرتی
کسی کا حال کسی سے کہا نہیں جاتا
حال دل یار کو محفل میں سنائیں کیوں کر
مدعی کان ادھر اور ادھر رکھتے ہیں
حال دل سنتے نہیں یہ کہہ کے خوش کر دیتے ہیں
پھر کبھی فرصت میں سن لیں گے کہانی آپ کی
دل سبھی کچھ زبان پر لایا
اک فقط عرض مدعا کے سوا
کیجے اظہار محبت چاہے جو انجام ہو
زندگی میں زندگی جیسا کوئی تو کام ہو
کوئی ملا ہی نہیں جس سے حال دل کہتے
ملا تو رہ گئے لفظوں کے انتخاب میں ہم
اظہار حال کا بھی ذریعہ نہیں رہا
دل اتنا جل گیا ہے کہ آنکھوں میں نم نہیں
کیا ملا عرض مدعا سے فگارؔ
بات کہنے سے اور بات گئی
اپنی ساری کاوشوں کو رائیگاں میں نے کیا
میرے اندر جو نہ تھا اس کو بیاں میں نے کیا
مسکرائے وہ حال دل سن کر
اور گویا جواب تھا ہی نہیں
کیا بلا تھی ادائے پرسش یار
مجھ سے اظہار مدعا نہ ہوا
عشق ہے تو عشق کا اظہار ہونا چاہئے
آپ کو چہرے سے بھی بیمار ہونا چاہئے
-
موضوعات : صورتاور 1 مزید
مدعا اظہار سے کھلتا نہیں ہے
یہ زبان بے زبانی اور ہے
کس سے اظہار مدعا کیجے
آپ ملتے نہیں ہیں کیا کیجے
پرسش حال بھی اتنی کہ میں کچھ کہہ نہ سکوں
اس تکلف سے کرم ہو تو ستم ہوتا ہے
کیوں نہ تنویرؔ پھر اظہار کی جرأت کیجے
خامشی بھی تو یہاں باعث رسوائی ہے
شاعری کو مرا اظہار سمجھتا ہے مگر
پردۂ شعر اٹھانا بھی نہیں چاہتا ہے
اچھی خاصی دوستی تھی یار ہم دونوں کے بیچ
ایک دن پھر اس نے اظہار محبت کر دیا
سینے سے دل نکال کے ہاتھوں پہ رکھ دیا
میں نے تو بس کہا تھا کہ دھڑکن کا شور ہے
-
موضوع : ویلنٹائن ڈے