Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Nushur Wahidi's Photo'

نشور واحدی

1912 - 1983 | کانپور, انڈیا

نشور واحدی کے اشعار

25.7K
Favorite

باعتبار

انجام وفا یہ ہے جس نے بھی محبت کی

مرنے کی دعا مانگی جینے کی سزا پائی

وعدے اور اعتبار میں ہے ربط باہمی

اس ربط باہمی کا مگر اعتبار کیا

کس بے بسی کے ساتھ بسر کر رہا ہے عمر

انسان مشت خاک کا احساس لیے ہوئے

معاذ اللہ مے خانے کے اوراد سحرگاہی

اذاں میں کہہ گیا میں ایک دن یا پیر مے خانہ

ہم نے بھی نگاہوں سے انہیں چھو ہی لیا ہے

آئینہ کا رخ جب وہ ادھر کرتے رہے ہیں

سرک کر آ گئیں زلفیں جو ان مخمور آنکھوں تک

میں یہ سمجھا کہ مے خانے پہ بدلی چھائی جاتی ہے

میری آنکھوں میں ہیں آنسو تیرے دامن میں بہار

گل بنا سکتا ہے تو شبنم بنا سکتا ہوں میں

اغیار کو گل پیرہنی ہم نے عطا کی

اپنے لیے پھولوں کا کفن ہم نے بنایا

تاریخ جنوں یہ ہے کہ ہر دور خرد میں

اک سلسلۂ دار و رسن ہم نے بنایا

یہی کانٹے تو کچھ خوددار ہیں صحن گلستاں میں

کہ شبنم کے لیے دامن تو پھیلایا نہیں کرتے

سلیقہ جن کو ہوتا ہے غم دوراں میں جینے کا

وہ یوں شیشے کو ہر پتھر سے ٹکرایا نہیں کرتے

قدم مے خانہ میں رکھنا بھی کار پختہ کاراں ہے

جو پیمانہ اٹھاتے ہیں وہ تھرایا نہیں کرتے

زندگی پرچھائیاں اپنی لیے

آئنوں کے درمیاں سے آئی ہے

دولت کا فلک توڑ کے عالم کی جبیں پر

مزدور کی قسمت کے ستارے نکل آئے

میں تنکوں کا دامن پکڑتا نہیں ہوں

محبت میں ڈوبا تو کیسا سہارا

دیا خاموش ہے لیکن کسی کا دل تو جلتا ہے

چلے آؤ جہاں تک روشنی معلوم ہوتی ہے

اک نظر کا فسانہ ہے دنیا

سو کہانی ہے اک کہانی سے

بڑی حسرت سے انساں بچپنے کو یاد کرتا ہے

یہ پھل پک کر دوبارہ چاہتا ہے خام ہو جائے

زمانہ یاد کرے یا صبا کرے خاموش

ہم اک چراغ محبت جلائے جاتے ہیں

خاک اور خون سے اک شمع جلائی ہے نشورؔ

موت سے ہم نے بھی سیکھی ہے حیات آرائی

اسی کو زندگی کا ساز دے کے مطمئن ہوں میں

وہ حسن جس کو حسن بے ثبات کہتے آئے ہیں

حقیقت جس جگہ ہوتی ہے تابانی بتاتی ہے

کوئی پردے میں ہوتا ہے تو چلمن جگمگاتی ہے

نشورؔ آلودۂ عصیاں سہی پر کون باقی ہے

یہ باتیں راز کی ہیں قبلۂ عالم بھی پیتے ہیں

ایک رشتہ بھی محبت کا اگر ٹوٹ گیا

دیکھتے دیکھتے شیرازہ بکھر جاتا ہے

دنیا کی بہاروں سے آنکھیں یوں پھیر لیں جانے والوں نے

جیسے کوئی لمبے قصے کو پڑھتے پڑھتے اکتا جائے

ہستی کا نظارہ کیا کہئے مرتا ہے کوئی جیتا ہے کوئی

جیسے کہ دوالی ہو کہ دیا جلتا جائے بجھتا جائے

ہم روایات کو پگھلا کے نشورؔ

اک نئے فن کے قریب آ پہنچے

زندگی قریب ہے کس قدر جمال سے

جب کوئی سنور گیا زندگی سنور گئی

ہزار شمع فروزاں ہو روشنی کے لیے

نظر نہیں تو اندھیرا ہے آدمی کے لیے

میں ابھی سے کس طرح ان کو بے وفا کہوں

منزلوں کی بات ہے راستے میں کیا کہوں

گناہ گار تو رحمت کو منہ دکھا نہ سکا

جو بے گناہ تھا وہ بھی نظر ملا نہ سکا

ہے شام ابھی کیا ہے بہکی ہوئی باتیں ہیں

کچھ رات ڈھلے ساقی مے خانہ سنبھلتا ہے

تغیرات کے عالم میں زندگانی ہے

شباب فانی نظر فانی حسن فانی ہے

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے