Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Rahat Indori's Photo'

راحت اندوری

1950 - 2020 | اندور, انڈیا

مقبول شاعر اور فلم نغمہ نگار

مقبول شاعر اور فلم نغمہ نگار

راحت اندوری کے اشعار

91.3K
Favorite

باعتبار

اس کی یاد آئی ہے سانسو ذرا آہستہ چلو

دھڑکنوں سے بھی عبادت میں خلل پڑتا ہے

دوستی جب کسی سے کی جائے

دشمنوں کی بھی رائے لی جائے

نہ ہم سفر نہ کسی ہم نشیں سے نکلے گا

ہمارے پاؤں کا کانٹا ہمیں سے نکلے گا

شاخوں سے ٹوٹ جائیں وہ پتے نہیں ہیں ہم

آندھی سے کوئی کہہ دے کہ اوقات میں رہے

ہم سے پہلے بھی مسافر کئی گزرے ہوں گے

کم سے کم راہ کے پتھر تو ہٹاتے جاتے

آنکھ میں پانی رکھو ہونٹوں پہ چنگاری رکھو

زندہ رہنا ہے تو ترکیبیں بہت ساری رکھو

روز تاروں کو نمائش میں خلل پڑتا ہے

چاند پاگل ہے اندھیرے میں نکل پڑتا ہے

نئے کردار آتے جا رہے ہیں

مگر ناٹک پرانا چل رہا ہے

بہت غرور ہے دریا کو اپنے ہونے پر

جو میری پیاس سے الجھے تو دھجیاں اڑ جائیں

گھر کے باہر ڈھونڈھتا رہتا ہوں دنیا

گھر کے اندر دنیا داری رہتی ہے

یہ ضروری ہے کہ آنکھوں کا بھرم قائم رہے

نیند رکھو یا نہ رکھو خواب معیاری رکھو

بیمار کو مرض کی دوا دینی چاہئے

میں پینا چاہتا ہوں پلا دینی چاہئے

وہ چاہتا تھا کہ کاسہ خرید لے میرا

میں اس کے تاج کی قیمت لگا کے لوٹ آیا

مری خواہش ہے کہ آنگن میں نہ دیوار اٹھے

مرے بھائی مرے حصے کی زمیں تو رکھ لے

میں آخر کون سا موسم تمہارے نام کر دیتا

یہاں ہر ایک موسم کو گزر جانے کی جلدی تھی

ہم اپنی جان کے دشمن کو اپنی جان کہتے ہیں

محبت کی اسی مٹی کو ہندستان کہتے ہیں

تیری محفل سے جو نکلا تو یہ منظر دیکھا

مجھے لوگوں نے بلایا مجھے چھو کر دیکھا

سورج ستارے چاند مرے ساتھ میں رہے

جب تک تمہارے ہاتھ مرے ہاتھ میں رہے

ایک ہی ندی کے ہیں یہ دو کنارے دوستو

دوستانہ زندگی سے موت سے یاری رکھو

بوتلیں کھول کر تو پی برسوں

آج دل کھول کر بھی پی جائے

اب تو ہر ہاتھ کا پتھر ہمیں پہچانتا ہے

عمر گزری ہے ترے شہر میں آتے جاتے

میں پربتوں سے لڑتا رہا اور چند لوگ

گیلی زمین کھود کے فرہاد ہو گئے

یہ ہوائیں اڑ نہ جائیں لے کے کاغذ کا بدن

دوستو مجھ پر کوئی پتھر ذرا بھاری رکھو

میں نے اپنی خشک آنکھوں سے لہو چھلکا دیا

اک سمندر کہہ رہا تھا مجھ کو پانی چاہئے

مزہ چکھا کے ہی مانا ہوں میں بھی دنیا کو

سمجھ رہی تھی کہ ایسے ہی چھوڑ دوں گا اسے

روز پتھر کی حمایت میں غزل لکھتے ہیں

روز شیشوں سے کوئی کام نکل پڑتا ہے

میں آ کر دشمنوں میں بس گیا ہوں

یہاں ہمدرد ہیں دو چار میرے

اک ملاقات کا جادو کہ اترتا ہی نہیں

تری خوشبو مری چادر سے نہیں جاتی ہے

شہر کیا دیکھیں کہ ہر منظر میں جالے پڑ گئے

ایسی گرمی ہے کہ پیلے پھول کالے پڑ گئے

میں مر جاؤں تو میری ایک الگ پہچان لکھ دینا

لہو ث میری پیشانی پے ہندستان لکھ دینا

خیال تھا کہ یہ پتھراؤ روک دیں چل کر

جو ہوش آیا تو دیکھا لہو لہو ہم تھے

کالج کے سب بچے چپ ہیں کاغذ کی اک ناؤ لیے

چاروں طرف دریا کی صورت پھیلی ہوئی بیکاری ہے

رات کی دھڑکن جب تک جاری رہتی ہے

سوتے نہیں ہم ذمہ داری رہتی ہے

ہمارے میر تقی میرؔ نے کہا تھا کبھی

میاں یہ عاشقی عزت بگاڑ دیتی ہے

سوئے رہتے ہیں اوڑھ کر خود کو

اب ضرورت نہیں رضائی کی

ستارو آؤ مری راہ میں بکھر جاؤ

یہ میرا حکم ہے حالانکہ کچھ نہیں ہوں میں

چراغوں کا گھرانا چل رہا ہے

ہوا سے دوستانہ چل رہا ہے

اب اتنی ساری شبوں کا حساب کون رکھے

بڑے ثواب کمائے گئے جوانی میں

آتے جاتے پل یہ کہتے ہیں ہمارے کان میں

کوچ کا اعلان ہونے کو ہے تیاری رکھو

چاند سورج مری چوکھٹ پہ کئی صدیوں سے

روز لکھے ہوئے چہرے پہ سوال آتے ہیں

جا نمازوں کی طرح نور میں اجلائی سحر

رات بھر جیسے فرشتوں نے عبادت کی ہے

میں کروٹوں کے نئے ذائقے لکھوں شب بھر

یہ عشق ہے تو کہاں زندگی عذاب کروں

شام نے جب پلکوں پہ آتش دان لیا

کچھ یادوں نے چٹکی میں لوبان لیا

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے