Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
For any query/comment related to this ebook, please contact us at haidar.ali@rekhta.org

مصنف: تعارف

آپ کا اصل نام ڈاکٹر ذوالقرنین احمد جبکہ قلمی نام شاداب احسانی ہے اور آپ نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا کے معروف علمی و ادبی مراکز میں اسی نام سے جانے اور پہچانے جاتے ہیں ۔ آپ 1995 میں جامعہ کراچی شعبہ اردو میں بطور لیکچرار تعینات ہوٸے اور آپ نے تنشگان علم کو علم جیسی نعمت سے فیضاب کرنا شروع کیا اور ساتھ ہی ساتھ مطالعے کا سلسلہ جاری رکھا 2004 میں اسی جامعہ سے ” *قصہ عشق افزا نسخہ علی گڑھ کوٸن فراسو“* کے موضوع پر پی ایچ ۔ڈی مکمل کرکے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ۔ آپ لیکچرار کے عہدے سے درجہ بدرجہ ترقی کرتے گٸے اور 2011 میں پروفیسر کے عہدے پر فاٸز ہوگٸے۔پروفیسر بننے کے دو تین سال بعد 2013 میں آپ شعبہ اردو جامعہ کراچی میں صدر شعبہ کے منصب پر فاٸز ہوٸے ۔ اور اسی دوران شعبہ اردو سے تحقیقی *رسالہ امتزاج* کا اجرا کیا اور کٸی سال تک آپ خود اس رسالے کے مدیر بھی رہے یہ رسالہ ایچ ای سی کے واٸی کٹیگری جرنل میں شامل ہے ۔صدر شعبہ اردو کے وقت آپ کا ایک اور بہت بڑا کارنامہ بی۔اے اور بی۔کام میں اردو بطور لازمی مضمون دوبارہ شامل کرنے میں آپ نے کلیدی کردار ادا کیا ۔ اس سے پہلے بی ۔کام سے اردو مضمون ختم کیا گیا تھا ۔ ڈاکٹر شاداب احسانی صاحب نے ایک طویل عرصے تک یعنی بایس سال شعبہ اردو میں اپنی خدمات انجام دیے آپ کی سرپرستی میں تیس سے زاٸد طالب علموں نے ایم۔فل ، پی ایچ ۔ڈی مکمل کیے ۔ 2017 میں بایس سالہ تعلیمی خدمات انجام دینے کے بعد آپ ریٹاٸر ہوگٸے ۔
اس وقت آپ انجمن ترقی اردو پاکستان ، کراچی کے نماٸندہ ششماہی رسالہ ” اردو “ کے مدیر ہیں ۔آپ پاکستان راٸٹرز گلڈ سندھ کے سیکٹری جنرل کی حیثیت سے ادبی خدمات میں مصروف عمل ہیں۔ساتھ ہی ساتھ پاکستان کے بیسوں ادبی انجمنوں کی سرپرستی بھی فرمارہے ہیں۔شہر بھر میں منعقد ہونے والی ادبی نشستوں کی زیب و ذینت آپ سے ہیں۔
ڈاکٹر شاداب احسانی اردو ادب کے دانشور ہیں اور آپ نے اب تک کٸی کتابیں لکھی ہیں ۔ان میں دو شعری مجموعہ ” غبار گریہ ، پسِ گرداب “ کوٸن فراسو حیات اور خدمات ، قصہ عشق افزا نسخہ علی گڑھ فراسو کوٸن کا ٹلیب ، بیانیہ اور پاکستانی بیانیہ “ وغیرہ شامل ہیں اور کٸی کتابیں طبع کے مراحل سے گزر رہے ہیں ۔ان شا اللہ بہت جلد یہ کتابیں بھی منظر عام پر آٸے گی اور قارٸین سے خوب داد وصول کرے گی ۔
آپ کا سب سے بڑا کارنامہ تحریک پاکستانی بیانیہ ہے 2018 میں اس تحریک کی بنیاد رکھی ۔
ڈاکٹر صاحب کے اس بیانیے نے علمی و ادبی حلقوں میں ایک تہلکہ سا مچا رکھا ہے اور پاکستان کے مختلف حصوں میں اس پر تیزی سے کانفرنس منعقد کی جا رہی ہے۔
بقول شاعر :
*میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر*
*لوگ ساتھ آتے گٸے اور کارواں بنتا گیا “*
کی مصداق اب ڈاکٹر صاحب کے قافلے میں علمی و ادبی لوگ تیزی سے شامل ہوتے جا رہے ہیں اور سبھی ڈاکٹر صاحب کے اس نظرے سے متفق بھی ہے اور پاکستانی بیانیہ کو ملک میں پروان چڑھانے کے لیے ہر آٸے روز سیمنار اور کانفرنس منعقد کرتے جا رہے ہیں ۔ان سیمنار میں علمی و ادبی شخصیات کے علاوہ سیاسی ، مذہبی علما و شعرا بھی کثرت سے شامل ہوتے جا رہے ہیں ۔ ڈاکٹر صاحب کا کہنا ہے کہ جو قومیں اپنی شناخت نہیں رکھتی یا جس قوم کا اپنا کوٸی بیانیہ نہیں ہوگا وہ قوم
*” ڈارک ایجز “Dark Ages*
میں چلا جاتا ہے دنیا کی تمام قومیں اپنی بیانیہ کو اہیمت دیتی ہے اس لیے وہ قومیں ترقی کے زینے طے کرتی ہے ۔اگر آج پوری دنیا میں
*” پالوکو لو کا ناول الکیمسٹ “* مشہور ہے تو وہ قومی بیانیہ کی وجہ سے ہے ورنہ سے اتنی مقبولیت نہیں ملتی اور نہ ہی تیس سے زاٸد زبانوں میں ترجمہ ہوتا ۔ یا آپ امریکا کے معروف شاعر *” جان ٹرم بل “* کی شاعری دیکھے اس میں بھی امریکا ہی کے بیانیہ سے جڑ کر شاعری کی اس وجہ سے آج امریکا میں ان کا بہت بڑا نام بھی ہے اور خود امریکا سپر پاور بھی ہے ۔یا *راجر بیکن ، شیکسپیر ، گلیلیو* وغیرہ سبھی اپنے بیانیہ سے جڑا ہوا تھا اس وجہ سے آج تک معروف ہے ۔ بیانیہ اور شناخت کی اہمیت اجاگر کرتے ہوٸے ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ جب فن لینڈ نے موبایل بنایا تو اس نے اپنے دریا کے نام پر موبایل کا نام نوکیا Nokia رکھا تاکہ ملک ہی کی تہذیب و ثقافت مشہور ہو جاٸے لیکن یہ ایک عجیب المیہ ہے کہ ہم دوسروں کی تہذیب و ثقافت کو فروغ دینے کے پیچھے لگا ہوا ہے ۔جب تک ہم اپنی الگ شناخت نہیں بناٸیں گے اس وقت تک ہم ترقی بھی نہیں کرسکتے ۔ شاداب احسانی کی یہ کتاب
” *بیانیہ اور پاکستانی بیانیہ “* 92 نیوز کراچی کے لیے لکھے ہوٸے کالموں کا مجموعہ ہے اور اس میں کل 42 کالم ہیں ۔ یہ مجموعہ ڈاکٹر صاحب کی اس فلسفیانہ سوچ پر مبنی ہے جو آپ نے ایشیا اور افریقہ و یورپ کے ان ممالک کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوٸے عمیق مطالعے اور کہری سوچ سے اخد کیے ہیں ۔ اس کتاب کا مطالعہ ملک کے تمام سیاسی و مذہبی ، علمی و ادبی تمام شخصیات کو کرنا چاہیے ۔بالخصوص پاکستان کے فکرمند طبقے اور تھینگ ٹینکس جو ایک ایسے پاکستانی بیانیہ کے متلاشی ہیں جو ملک عزیز میں امن و استحکام اور خوشحالی و ترقی چاہتے ہیں ان کے لیے یہ کتاب معاون مددگار ثابت ہوگی ۔

.....مزید پڑھئے
For any query/comment related to this ebook, please contact us at haidar.ali@rekhta.org

مصنف کی مزید کتابیں

مصنف کی دیگر کتابیں یہاں پڑھئے۔

مزید

مقبول و معروف

مقبول و معروف اور مروج کتابیں یہاں تلاش کریں

مزید

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے