اطہر نفیس کے اشعار
دروازہ کھلا ہے کہ کوئی لوٹ نہ جائے
اور اس کے لیے جو کبھی آیا نہ گیا ہو
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
ہمارے عشق میں رسوا ہوئے تم
مگر ہم تو تماشا ہو گئے ہیں
کبھی سایہ ہے کبھی دھوپ مقدر میرا
ہوتا رہتا ہے یوں ہی قرض برابر میرا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
اک شکل ہمیں پھر بھائی ہے اک صورت دل میں سمائی ہے
ہم آج بہت سرشار سہی پر اگلا موڑ جدائی ہے
خوابوں کے افق پر ترا چہرہ ہو ہمیشہ
اور میں اسی چہرے سے نئے خواب سجاؤں
بہت چھوٹے ہیں مجھ سے میرے دشمن
جو میرا دوست ہے مجھ سے بڑا ہے
-
موضوع : دوست
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
یہ دھوپ تو ہر رخ سے پریشاں کرے گی
کیوں ڈھونڈ رہے ہو کسی دیوار کا سایہ
اتنے دن کے بعد تو آیا ہے آج
سوچتا ہوں کس طرح تجھ سے ملوں
-
موضوع : استقبال
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
اک آگ غم تنہائی کی جو سارے بدن میں پھیل گئی
جب جسم ہی سارا جلتا ہو پھر دامن دل کو بچائیں کیا
-
موضوع : تنہائی
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
اطہرؔ تم نے عشق کیا کچھ تم بھی کہو کیا حال ہوا
کوئی نیا احساس ملا یا سب جیسا احوال ہوا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
با وفا تھا تو مجھے پوچھنے والے بھی نہ تھے
بے وفا ہوں تو ہوا نام بھی گھر گھر میرا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
کسی نا خواندہ بوڑھے کی طرح خط اس کا پڑھتا ہوں
کہ سو سو بار اک اک لفظ سے انگلی گزرتی ہے
وہ عشق جو ہم سے روٹھ گیا اب اس کا حال بتائیں کیا
کوئی مہر نہیں کوئی قہر نہیں پھر سچا شعر سنائیں کیا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
اس نے مری نگاہ کے سارے سخن سمجھ لیے
پھر بھی مری نگاہ میں ایک سوال ہے نیا
-
موضوع : نگاہ
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
سوچتے اور جاگتے سانسوں کا اک دریا ہوں میں
اپنے گم گشتہ کناروں کے لیے بہتا ہوں میں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے