Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Ghulam Murtaza Rahi's Photo'

غلام مرتضی راہی

1937 | فتح پور, انڈیا

غلام مرتضی راہی کے اشعار

3.6K
Favorite

باعتبار

اب اور دیر نہ کر حشر برپا کرنے میں

مری نظر ترے دیدار کو ترستی ہے

چلے تھے جس کی طرف وہ نشان ختم ہوا

سفر ادھورا رہا آسمان ختم ہوا

کیسا انساں ترس رہا ہے جینے کو

کیسے ساحل پر اک مچھلی زندہ ہے

ہر ایک سانس مجھے کھینچتی ہے اس کی طرف

یہ کون میرے لیے بے قرار رہتا ہے

آتا تھا جس کو دیکھ کے تصویر کا خیال

اب تو وہ کیل بھی مری دیوار میں نہیں

کوئی اک ذائقہ نہیں ملتا

غم میں شامل خوشی سی رہتی ہے

اپنی تصویر کے اک رخ کو نہاں رکھتا ہے

یہ چراغ اپنا دھواں جانے کہاں رکھتا ہے

رکھ دیا وقت نے آئینہ بنا کر مجھ کو

رو بہ رو ہوتے ہوئے بھی میں فراموش رہا

کسی نے بھیج کر کاغذ کی کشتی

بلایا ہے سمندر پار مجھ کو

دل نے تمنا کی تھی جس کی برسوں تک

ایسے زخم کو اچھا کر کے بیٹھ گئے

میں ترے واسطے آئینہ تھا

اپنی صورت کو ترس اب کیا ہے

یاروں نے میری راہ میں دیوار کھینچ کر

مشہور کر دیا کہ مجھے سایہ چاہئے

میری پہچان بتانے کا سوال آیا جب

آئنوں نے بھی حقیقت سے مکرنا چاہا

پہلے اس نے مجھے چنوا دیا دیوار کے ساتھ

پھر عمارت کو مرے نام سے موسوم کیا

نہ جانے قید میں ہوں یا حفاظت میں کسی کی

کھنچی ہے ہر طرف اک چار دیواری سی کوئی

یہ دور ہے جو تمہارا رہے گا یہ بھی نہیں

کوئی زمانہ تھا میرا گزر گیا وہ بھی

زبان اپنی بدلنے پہ کوئی راضی نہیں

وہی جواب ہے اس کا وہی سوال مرا

دوسرا کوئی تماشہ نہ تھا ظالم کے پاس

وہی تلوار تھی اس کی وہی سر تھا میرا

حسن عمل میں برکتیں ہوتی ہیں بے شمار

پتھر بھی توڑیئے تو سلیقے سے توڑیئے

جو اس طرف سے اشارہ کبھی کیا اس نے

میں ڈوب جاؤں گا دریا کو پار کرتے ہوئے

ایک ہستی مری عناصر چار

ہر طرف سے گھری سی رہتی ہے

گرمیوں بھر مرے کمرے میں پڑا رہتا ہے

دیکھ کر رخ مجھے سورج کا یہ گھر لینا تھا

کتنا بھی رنگ و نسل میں رکھتے ہوں اختلاف

پھر بھی کھڑے ہوئے ہیں شجر اک قطار میں

اس نے جب دروازہ مجھ پر بند کیا

مجھ پر اس کی محفل کے آداب کھلے

سانسوں کے آنے جانے سے لگتا ہے

اک پل جیتا ہوں تو اک پل مرتا ہوں

چاہتا ہے وہ کہ دریا سوکھ جائے

ریت کا بیوپار کرنا چاہتا ہے

دیکھنے سننے کا مزہ جب ہے

کچھ حقیقت ہو کچھ فسانہ ہو

رکھتا نہیں ہے دشت سروکار آب سے

بہلائے جاتے ہیں یہاں پیاسے سراب سے

یہ لوگ کس کی طرف دیکھتے ہیں حسرت سے

وہ کون ہے جو سمندر کے پار رہتا ہے

پہلے چنگاری اڑا لائی ہوا

لے کے اب راکھ اڑی جاتی ہے

اپنی قسمت کا بلندی پہ ستارہ دیکھوں

ظلمت شب میں یہی ایک نظارہ دیکھوں

اب جو آزاد ہوئے ہیں تو خیال آیا ہے

کہ ہمیں قید بھلی تھی تو سزا کیسی تھی

بات بڑھتی گئی آگے مری نادانی سے

کتنا ارزاں ہوا میں اپنی فراوانی سے

جھانکتا بھی نہیں سورج مرے گھر کے اندر

بند بھی کوئی دریچہ نہیں رہنے دیتا

جیسے کوئی کاٹ رہا ہے جال مرا

جیسے اڑنے والا کوئی پرندہ ہے

میری کشتی کو ڈبو کر چین سے بیٹھے نہ تو

اے مرے دریا! ہمیشہ تجھ میں طغیانی رہے

کسی کی راہ میں آنے کی یہ بھی صورت ہے

کہ سایہ کے لیے دیوار ہو لیا جائے

یوں ہی بنیاد کا درجہ نہیں ملتا کسی کو

کھڑی کی جائے گی مجھ پر ابھی دیوار کوئی

کچھ ایسے دیکھتا ہے وہ مجھے کہ لگتا ہے

دکھا رہا ہے مجھے میرا آئنا کچھ اور

ایک دن دریا مکانوں میں گھسا

اور دیواریں اٹھا کر لے گیا

رہے گا آئینے کی طرح آب پر قائم

ندی میں ڈوبنے والا نہیں کنارہ مرا

پرکھوں سے چلی آتی ہے یہ نقل مکانی

اب مجھ سے بھی خالی مرا گھر ہونے لگا ہے

ایک اک لفظ سے معنی کی کرن پھوٹتی ہے

روشنی میں پڑھا جاتا ہے صحیفہ میرا

کہاں تک اس کی مسیحائی کا شمار کروں

جہاں ہے زخم وہیں اندمال ہے اس کا

ہم سری ان کی جو کرنا چاہے

اس کو سولی پر چڑھا دیتے ہیں

صحرا جنگل ساگر پربت

ان سے ہی رستہ ملتا ہے

اے مرے پایاب دریا تجھ کو لے کر کیا کروں

ناخدا پتوار کشتی بادباں رکھتے ہوئے

اب مرے گرد ٹھہرتی نہیں دیوار کوئی

بندشیں ہار گئیں بے سر و سامانی سے

حصار جسم مرا توڑ پھوڑ ڈالے گا

ضرور کوئی مجھے قید سے چھڑا لے گا

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے