Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Qaisarul Jafri's Photo'

قیصر الجعفری

1926 - 2005 | ممبئی, انڈیا

اپنی غزل " دیواروں سے مل کر رونا اچھا لگتا ہے " کے لئے مشہور

اپنی غزل " دیواروں سے مل کر رونا اچھا لگتا ہے " کے لئے مشہور

قیصر الجعفری کے اشعار

19.6K
Favorite

باعتبار

مسافر چلتے چلتے تھک گئے منزل نہیں ملتی

قدم کے ساتھ بڑھتا جا رہا ہو فاصلہ جیسے

راستا دیکھ کے چل ورنہ یہ دن ایسے ہیں

گونگے پتھر بھی سوالات کریں گے تجھ سے

آج برسوں میں تو قسمت سے ملاقات ہوئی

آپ منہ پھیر کے بیٹھے ہیں یہ کیا بات ہوئی

شاعری پہلے رسولوں کی دعا تھی قیصرؔ

آج اس عہد میں اک شعبدۂ ذات ہوئی

ہر شخص ہے اشتہار اپنا

ہر چہرہ کتاب ہو گیا ہے

جس دن سے بنے ہو تم مسیحا

حال اور خراب ہو گیا ہے

ساون ایک مہینے قیصرؔ آنسو جیون بھر

ان آنکھوں کے آگے بادل بے اوقات لگے

تم سے بچھڑے دل کو اجڑے برسوں بیت گئے

آنکھوں کا یہ حال ہے اب تک کل کی بات لگے

بستی میں ہے وہ سناٹا جنگل مات لگے

شام ڈھلے بھی گھر پہنچوں تو آدھی رات لگے

یہ وقت بند دریچوں پہ لکھ گیا قیصرؔ

میں جا رہا ہوں مرا انتظار مت کرنا

دستک میں کوئی درد کی خوشبو ضرور تھی

دروازہ کھولنے کے لیے گھر کا گھر اٹھا

تو اس طرح سے مرے ساتھ بے وفائی کر

کہ تیرے بعد مجھے کوئی بے وفا نہ لگے

تمہارے بس میں اگر ہو تو بھول جاؤ مجھے

تمہیں بھلانے میں شاید مجھے زمانہ لگے

وہ پھول جو مرے دامن سے ہو گئے منسوب

خدا کرے انہیں بازار کی ہوا نہ لگے

تمہارے شہر کا موسم بڑا سہانا لگے

میں ایک شام چرا لوں اگر برا نہ لگے

جو ڈوبنا ہے تو اتنے سکون سے ڈوبو

کہ آس پاس کی لہروں کو بھی پتا نہ لگے

رکھی نہ زندگی نے مری مفلسی کی شرم

چادر بنا کے راہ میں پھیلا گئی مجھے

گھر بسا کر بھی مسافر کے مسافر ٹھہرے

لوگ دروازوں سے نکلے کہ مہاجر ٹھہرے

زندگی نے مرا پیچھا نہیں چھوڑا اب تک

عمر بھر سر سے نہ اتری یہ بلا کیسی تھی

فن وہ جگنو ہے جو اڑتا ہے ہوا میں قیصرؔ

بند کر لو گے جو مٹھی میں تو مر جائے گا

زندگی بھر کے لیے روٹھ کے جانے والے

میں ابھی تک تری تصویر لیے بیٹھا ہوں

کم سے کم ریت سے آنکھیں تو بچیں گی قیصرؔ

میں ہواؤں کی طرف پیٹھ کیے بیٹھا ہوں

ہوا خفا تھی مگر اتنی سنگ دل بھی نہ تھی

ہمیں کو شمع جلانے کا حوصلہ نہ ہوا

میں زہر پیتا رہا زندگی کے ہاتھوں سے

یہ اور بات ہے میرا بدن ہرا نہ ہوا

کتنے دنوں کے پیاسے ہوں گے یارو سوچو تو

شبنم کا قطرہ بھی جن کو دریا لگتا ہے

دیواروں سے مل کر رونا اچھا لگتا ہے

ہم بھی پاگل ہو جائیں گے ایسا لگتا ہے

گھر لوٹ کے روئیں گے ماں باپ اکیلے میں

مٹی کے کھلونے بھی سستے نہ تھے میلے میں

تم آ گئے ہو خدا کا ثبوت ہے یہ بھی

قسم خدا کی ابھی میں نے تم کو سوچا تھا

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے