Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

تصویری شاعری

تصویری شاعری کا یہ پہلا ایسا آن لائن ذخیرہ ہے جس میں ہزاروں خوبصورت اشعار کو ان کے معنی کی مناسبت سے تصویروں کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ یہ دیدہ زیب پیش کش نہ صرف شعر کو سمجھنے میں معاون ہوگی بلکہ اس کے ذریعے معنی کے نیےعلاقوں تک رسائی ممکن ہو سکے گی۔ ان شعروں کو پڑھیے، دیکھیے اور شعر فہموں کے ساتھ شئیر کیجیے۔

بسکہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا

آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا

تشریح

اردو شاعری میں آدمی اور انسان کے فرق کو غالبؔ نے پہلی بار اجاگر کیا۔ اُن سے پہلے نظیراکبرآبادی نے ’’آدمی نامہ‘‘ نامہ میں آدمی کو کچھ اس طرح بیان کیا ہے:

یاں آدمی پہ جان کو وارے ہے آدمی

اور آدمی کو جان سے مارے ہے آدمی

چلا کے آدمی کو پکارے ہے آدمی

جو سُن کے دوڑتا ہے سو ہے وہ بھی آدمی

ان مصرعوں میں انسان کا کوئی تذکرہ نہیں۔ غالبؔ کے بعد مشہور شاعر حالیؔ نے کہا:

فرشتے سے بہتر ہے انسان بننا

مگر اس میں پڑتی ہے محنت زیادہ

اس شعر سے آدمی غائب ہے۔ غالبؔ نے آدمی اور انسان میں فرق ضرور کیا لیکن کسی بھی طرح آدمی کے لئے حقارت اور انسان کے لئے عقیدت کا اظہار نہیں کیا۔ انھوں نے پہلے ہی مصرع میں کہہ دیا کہ ہر کام آسان نہیں ہوتا اور دوسرے مصرع میں بتا دیا کہ انسان بننا تو آدمی کو ہی میسر نہیں۔ میسر ہونا کے معنی ہیں آسان ہونا۔ یہ دشوار ہونے کی ضد ہے۔ دو الفاظ جو معنی میں ایک دوسرے سے قریب ہوں یا پھر ایک دوسرے کے مخالف ہوں، ایک ہی شعر میں جمع کرنے سے شعر میں تناؤ اور حسن پیدا ہوتا ہے۔ غالبؔ کہتے ہیں کہ اگرچہ آدمی حیوانی سلسلے میں چوٹی پر ہے اور قدرت نے اسے بے پناہ صلاحیتوں سے نوازا ہے پھر بھی اس کے لیے انسان بننا کوئی آسان کام نہیں۔ دوسرے الفاظ میں اگر آدمی، انسان بننے کی منزل تک نہ پہنچ سکے تب بھی وہ قابل ملامت نہیں کیونکہ یہ کام ہے ہی اتنا مشکل۔ یہاں غالبؔ غلطیوں، کوتاہیوں اور خطاؤں کے پتلے آدمی کا دفاع کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ غالبؔ چیزوں کو جس بلند مقام سے دیکھتے ہیں وہاں ہر چھوٹا اور بڑا، اچھا اور برا سب ایک ڈرامے کے کردار بن جاتے ہیں۔ غالبؔ کسی چیز کو عام آدمی کی نگاہ سے دیکھتے ہی نہیں۔ ان کے یہاں زبردست حقیقت پسندی نظر آتی ہے۔ انہوں نے اپنی غیر جذباتی حقیقت پسندی کو جس طرح شاعری کے سانچے میں ڈھالا ہے انھیں کا کمال ہے۔

مرزا غالب

تشریح

اردو شاعری میں آدمی اور انسان کے فرق کو غالبؔ نے پہلی بار اجاگر کیا۔ اُن سے پہلے نظیراکبرآبادی نے ’’آدمی نامہ‘‘ نامہ میں آدمی کو کچھ اس طرح بیان کیا ہے:

یاں آدمی پہ جان کو وارے ہے آدمی

اور آدمی کو جان سے مارے ہے آدمی

چلا کے آدمی کو پکارے ہے آدمی

جو سُن کے دوڑتا ہے سو ہے وہ بھی آدمی

ان مصرعوں میں انسان کا کوئی تذکرہ نہیں۔ غالبؔ کے بعد مشہور شاعر حالیؔ نے کہا:

فرشتے سے بہتر ہے انسان بننا

مگر اس میں پڑتی ہے محنت زیادہ

اس شعر سے آدمی غائب ہے۔ غالبؔ نے آدمی اور انسان میں فرق ضرور کیا لیکن کسی بھی طرح آدمی کے لئے حقارت اور انسان کے لئے عقیدت کا اظہار نہیں کیا۔ انھوں نے پہلے ہی مصرع میں کہہ دیا کہ ہر کام آسان نہیں ہوتا اور دوسرے مصرع میں بتا دیا کہ انسان بننا تو آدمی کو ہی میسر نہیں۔ میسر ہونا کے معنی ہیں آسان ہونا۔ یہ دشوار ہونے کی ضد ہے۔ دو الفاظ جو معنی میں ایک دوسرے سے قریب ہوں یا پھر ایک دوسرے کے مخالف ہوں، ایک ہی شعر میں جمع کرنے سے شعر میں تناؤ اور حسن پیدا ہوتا ہے۔ غالبؔ کہتے ہیں کہ اگرچہ آدمی حیوانی سلسلے میں چوٹی پر ہے اور قدرت نے اسے بے پناہ صلاحیتوں سے نوازا ہے پھر بھی اس کے لیے انسان بننا کوئی آسان کام نہیں۔ دوسرے الفاظ میں اگر آدمی، انسان بننے کی منزل تک نہ پہنچ سکے تب بھی وہ قابل ملامت نہیں کیونکہ یہ کام ہے ہی اتنا مشکل۔ یہاں غالبؔ غلطیوں، کوتاہیوں اور خطاؤں کے پتلے آدمی کا دفاع کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ غالبؔ چیزوں کو جس بلند مقام سے دیکھتے ہیں وہاں ہر چھوٹا اور بڑا، اچھا اور برا سب ایک ڈرامے کے کردار بن جاتے ہیں۔ غالبؔ کسی چیز کو عام آدمی کی نگاہ سے دیکھتے ہی نہیں۔ ان کے یہاں زبردست حقیقت پسندی نظر آتی ہے۔ انہوں نے اپنی غیر جذباتی حقیقت پسندی کو جس طرح شاعری کے سانچے میں ڈھالا ہے انھیں کا کمال ہے۔

مرزا غالب

مرزا غالب
بولیے