Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

تصویری شاعری

تصویری شاعری کا یہ پہلا ایسا آن لائن ذخیرہ ہے جس میں ہزاروں خوبصورت اشعار کو ان کے معنی کی مناسبت سے تصویروں کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ یہ دیدہ زیب پیش کش نہ صرف شعر کو سمجھنے میں معاون ہوگی بلکہ اس کے ذریعے معنی کے نیےعلاقوں تک رسائی ممکن ہو سکے گی۔ ان شعروں کو پڑھیے، دیکھیے اور شعر فہموں کے ساتھ شئیر کیجیے۔

شام سے کچھ بجھا سا رہتا ہوں

دل ہوا ہے چراغ مفلس کا

تشریح

اس شعر کا پہلا مصرع عام طور پر یوں مشہور ہےع

شام سے کچھ بجھا سا رہتا ہے

لیکن صحیح اور بہتر وہی ہے جو درج متن ہے۔ مصحفی کا ایک شعر اس سے تقریباً ہوبہو لڑ گیا ہے؎

شام سے ہی بجھا سا رہتا ہے

دل ہے گویا چراغ مفلس کا

میر کا شعر مصحفی سے کہیں بہتر ہے، کیوں کہ پہلے مصرع میں کہا کہ میں شام سے کچھ افسردہ رہتا ہوں۔ یہ افسردگی پورے مزاج، پوری شخصیت کی ہے۔ دوسرے مصرع میں بظاہر غیر متعلق بات کہی کہ میرا دل مفلس کا چراغ ہو گیا ہے۔ لیکن دراصل پہلے مصرعے میں دعویٰ اور دوسرے مصرعے میں دلیل ہے۔ جب دل مفلس کے چراغ کی طرح ہے تو ظاہر ہے اس میں روشنی کم ہوگی، یعنی حرارت کم ہوگی، یعنی اس میں امنگیں اور امیدیں کم ہوں گی۔ اور جب دل میں امنگیں اور امیدیں کم ہوں گی تو ظاہر ہے کہ پوری شخصیت افسردہ ہوگی۔ مصحفی کے شعر میں صرف ایک مشاہدہ ہے، کہ دل بجھا سا رہتا ہے۔ میر کے یہاں دو مشاہدے ہیں اور دونوں میں دعویٰ اور دلیل کا ربط بھی ہے۔ پھر یہ نکتہ بھی ہے کہ دل میں اگر روشنی کم ہے تو اس میں سوز بھی کم ہوگا۔ (چراغ جتنا روشن ہوگا اس میں سوزش بھی اتنی ہی ہوگی) تو اگر دل میں روشنی کم ہے تو اس میں سوز بھی کم ہوگا۔ (چراغ جتنا روشن ہوگا اس میں سوزش بھی اتنی ہی ہوگی۔) تو اگر دل میں سوز محبت کم ہونے کی وجہ سے طبیعت افسردہ رہتی ہے، یا دل بے نور ہے، یعنی اس میں معشوق کا جلوہ نہیں، یا اس میں نور معرفت نہیں۔ شام کی تخصیص اس وجہ سے کی کہ دن کو تو طرح طرح کی مصروفیتوں میں دل بہلا رہتا ہے۔ شام آتے ہی بے کاری اور تنہائی آ گھیرتی ہے۔ دل چوں کہ بالکل بے نور نہیں، بلکہ مفلس کے چراغ کی طرح سے دھندلی لو رکھتا ہے، اس لئے خود کو ’’کچھ بجھا سا‘‘ کہا، بالکل افسردہ نہیں کہا۔ دل میں ولولہ یا جلوۂ معشوق یا نور معرفت کم ہونے کے لئے اس کو دھندلے چراغ سے تشبیہ دینا، اور پھر چراغ کو براہ راست دھندلا نہ کہنا، بلکہ کنایاتی انداز میں مفلس کا چراغ کہنا، اعجاز سخن گوئی ہے۔ ’’چراغ مفلس‘‘ کا پیکر نسبتاً کمزور طریقے سے میر نے دیوان اوّل میں ہی ایک بار اور باندھا ہے؎

کہہ سانجھ کے موئے کو اے میر روئیں کب تک

جیسے چراغ مفلس اک دم میں جل بجھا تو

شہر یار نے اس مضمون کا ایک پہلو بڑی خوبی سے ادا کیا ہے؎

یہ تب ہے کہ اک خواب سے رشتہ ہے ہمارا

دن ڈھلتے ہی دل ڈوبنے لگتا ہے ہمارا

قائم چاند پوری نے بھی میر کے چراغ سے اپنا چراغ روشن کیا ہے۔ لیکن انہوں نے ’’تہی دست کا چراغ‘‘ کہہ کر ایک نیا پیکر بنایا ہے۔ اور ایک نئی بات بھی پیدا کردی ہے کہ ہاتھ خالی بھی ہے اور اس میں چراغ بھی ہے۔ قائم کا شعر ہے؎

نت ہی قائم بجھا سا رہتا ہوں

کس تہی دست کا چراغ ہوں میں

شمس الرحمن فاروقی

تشریح

اس شعر کا پہلا مصرع عام طور پر یوں مشہور ہےع

شام سے کچھ بجھا سا رہتا ہے

لیکن صحیح اور بہتر وہی ہے جو درج متن ہے۔ مصحفی کا ایک شعر اس سے تقریباً ہوبہو لڑ گیا ہے؎

شام سے ہی بجھا سا رہتا ہے

دل ہے گویا چراغ مفلس کا

میر کا شعر مصحفی سے کہیں بہتر ہے، کیوں کہ پہلے مصرع میں کہا کہ میں شام سے کچھ افسردہ رہتا ہوں۔ یہ افسردگی پورے مزاج، پوری شخصیت کی ہے۔ دوسرے مصرع میں بظاہر غیر متعلق بات کہی کہ میرا دل مفلس کا چراغ ہو گیا ہے۔ لیکن دراصل پہلے مصرعے میں دعویٰ اور دوسرے مصرعے میں دلیل ہے۔ جب دل مفلس کے چراغ کی طرح ہے تو ظاہر ہے اس میں روشنی کم ہوگی، یعنی حرارت کم ہوگی، یعنی اس میں امنگیں اور امیدیں کم ہوں گی۔ اور جب دل میں امنگیں اور امیدیں کم ہوں گی تو ظاہر ہے کہ پوری شخصیت افسردہ ہوگی۔ مصحفی کے شعر میں صرف ایک مشاہدہ ہے، کہ دل بجھا سا رہتا ہے۔ میر کے یہاں دو مشاہدے ہیں اور دونوں میں دعویٰ اور دلیل کا ربط بھی ہے۔ پھر یہ نکتہ بھی ہے کہ دل میں اگر روشنی کم ہے تو اس میں سوز بھی کم ہوگا۔ (چراغ جتنا روشن ہوگا اس میں سوزش بھی اتنی ہی ہوگی) تو اگر دل میں روشنی کم ہے تو اس میں سوز بھی کم ہوگا۔ (چراغ جتنا روشن ہوگا اس میں سوزش بھی اتنی ہی ہوگی۔) تو اگر دل میں سوز محبت کم ہونے کی وجہ سے طبیعت افسردہ رہتی ہے، یا دل بے نور ہے، یعنی اس میں معشوق کا جلوہ نہیں، یا اس میں نور معرفت نہیں۔ شام کی تخصیص اس وجہ سے کی کہ دن کو تو طرح طرح کی مصروفیتوں میں دل بہلا رہتا ہے۔ شام آتے ہی بے کاری اور تنہائی آ گھیرتی ہے۔ دل چوں کہ بالکل بے نور نہیں، بلکہ مفلس کے چراغ کی طرح سے دھندلی لو رکھتا ہے، اس لئے خود کو ’’کچھ بجھا سا‘‘ کہا، بالکل افسردہ نہیں کہا۔ دل میں ولولہ یا جلوۂ معشوق یا نور معرفت کم ہونے کے لئے اس کو دھندلے چراغ سے تشبیہ دینا، اور پھر چراغ کو براہ راست دھندلا نہ کہنا، بلکہ کنایاتی انداز میں مفلس کا چراغ کہنا، اعجاز سخن گوئی ہے۔ ’’چراغ مفلس‘‘ کا پیکر نسبتاً کمزور طریقے سے میر نے دیوان اوّل میں ہی ایک بار اور باندھا ہے؎

کہہ سانجھ کے موئے کو اے میر روئیں کب تک

جیسے چراغ مفلس اک دم میں جل بجھا تو

شہر یار نے اس مضمون کا ایک پہلو بڑی خوبی سے ادا کیا ہے؎

یہ تب ہے کہ اک خواب سے رشتہ ہے ہمارا

دن ڈھلتے ہی دل ڈوبنے لگتا ہے ہمارا

قائم چاند پوری نے بھی میر کے چراغ سے اپنا چراغ روشن کیا ہے۔ لیکن انہوں نے ’’تہی دست کا چراغ‘‘ کہہ کر ایک نیا پیکر بنایا ہے۔ اور ایک نئی بات بھی پیدا کردی ہے کہ ہاتھ خالی بھی ہے اور اس میں چراغ بھی ہے۔ قائم کا شعر ہے؎

نت ہی قائم بجھا سا رہتا ہوں

کس تہی دست کا چراغ ہوں میں

شمس الرحمن فاروقی

میر تقی میر

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے