راستہ پر اشعار
راستہ ، سفر، منزل ،
مسافر اور اس قسم کی دوسری لفظیات جو سفر ہی کے علاقے کی ہیں شاعری میں کثرت سے برتی گئی ہیں ۔ یہاں ہم کچھ ایسے اشعار پیش کر رہے ہیں جن میں راستہ اپنی تمام تر رسومیات کے ساتھ در آیا ہے ۔ یہ راستہ کبھی ملتا بھی ہے اور منزل تک پہنچاتا بھی ہے اور کبھی گم ہوجاتا ہے ۔ راستے کی پیچیدگی اور اس کی کثرت منزل کو بے نشان کردیتی ہے ۔ آپ ہمارے اس انتخاب کو پڑھئے اور زندگی کے زندہ تجربات میں شرکت کیجئے ۔
کیوں چلتے چلتے رک گئے ویران راستو
تنہا ہوں آج میں ذرا گھر تک تو ساتھ دو
فیضؔ تھی راہ سر بسر منزل
ہم جہاں پہنچے کامیاب آئے
-
موضوعات : فاتحاور 1 مزید
یہاں کسی کو کوئی راستہ نہیں دیتا
مجھے گرا کے اگر تم سنبھل سکو تو چلو
وہ کیا منزل جہاں سے راستے آگے نکل جائیں
سو اب پھر اک سفر کا سلسلہ کرنا پڑے گا
-
موضوع : منزل
یوں تیری رہ گزر سے دیوانہ وار گزرے
کاندھے پہ اپنے رکھ کے اپنا مزار گزرے
-
موضوعات : عشقاور 1 مزید
سفر کا ایک نیا سلسلہ بنانا ہے
اب آسمان تلک راستہ بنانا ہے
ہم آپ کو دیکھتے تھے پہلے
اب آپ کی راہ دیکھتے ہیں
کٹی ہوئی ہے زمیں کوہ سے سمندر تک
ملا ہے گھاؤ یہ دریا کو راستہ دے کر
-
موضوعات : دریااور 1 مزید
تو کبھی اس شہر سے ہو کر گزر
راستوں کے جال میں الجھا ہوں میں
کاش وہ راستے میں مل جائے
مجھ کو منہ پھیر کر گزرنا ہے
کوئی رستہ کہیں جائے تو جانیں
بدلنے کے لیے رستے بہت ہیں
جو رکاوٹ تھی ہماری راہ کی
راستہ نکلا اسی دیوار سے
یقیناً رہبر منزل کہیں پر راستا بھولا
وگرنہ قافلے کے قافلے گم ہو نہیں سکتے
میں خود ہی اپنے تعاقب میں پھر رہا ہوں ابھی
اٹھا کے تو میری راہوں سے راستا لے جا
دلچسپ ہو گئی ترے چلنے سے رہ گزر
اٹھ اٹھ کے گرد راہ لپٹتی ہے راہ سے
پھر اسی قبر کے برابر سے
زندہ رہنے کا راستہ نکلا
-
موضوع : قبر
عجب نہیں کہ یہ دریا نظر کا دھوکا ہو
عجب نہیں کہ کوئی راستہ نکل آئے
-
موضوعات : دریااور 1 مزید
جہاں تک پاؤں میرے جا سکے ہیں
وہیں تک راستہ ٹھہرا ہوا ہے
مسافر ترا ذکر کرتے رہے
مہکتا رہا راستہ دیر تک
-
موضوع : مسافر
میں اس کی دھن میں نئے راستے پہ جا نکلی
دیار جاں سے مری روز جو گزرتا رہا
-
موضوع : دیار