حفیظ ہوشیارپوری کے اشعار
آہ مرگ آدمی پر آدمی روئے بہت
کوئی بھی رویا نہ مرگ آدمیت کے لیے
ہم کو منزل نے بھی گمراہ کیا
راستے نکلے کئی منزل سے
تری تلاش میں جب ہم کبھی نکلتے ہیں
اک اجنبی کی طرح راستے بدلتے ہیں
تمام عمر کیا ہم نے انتظار بہار
بہار آئی تو شرمندہ ہیں بہار سے ہم
یہ دل کشی کہاں مری شام و سحر میں تھی
دنیا تری نظر کی بدولت نظر میں ہے
ترے جاتے ہی یہ عالم ہے جیسے
تجھے دیکھے زمانہ ہو گیا ہے
نظر سے حد نظر تک تمام تاریکی
یہ اہتمام ہے اک وعدۂ سحر کے لیے
دوستی عام ہے لیکن اے دوست
دوست ملتا ہے بڑی مشکل سے
تری تلاش ہے یا تجھ سے اجتناب ہے یہ
کہ روز ایک نئے راستے پہ چلتے ہیں
دل میں اک شور سا اٹھا تھا کبھی
پھر یہ ہنگامہ عمر بھر ہی رہا
یہ بات کہہ کے ہوا ناخدا الگ مجھ سے
یہ ہے سفینہ یہ گرداب ہے وہ ہے ساحل
دنیا میں ہیں کام بہت
مجھ کو اتنا یاد نہ آ
جلوہ بے باک ادا شوخ تماشا گستاخ
اٹھ گئے بزم سے آداب نظر میرے بعد
یہ تمیز عشق و ہوس نہیں ہے حقیقتوں سے گریز ہے
جنہیں عشق سے سروکار ہے وہ ضرور اہل ہوس بھی ہیں
دل سے آتی ہے بات لب پہ حفیظؔ
بات دل میں کہاں سے آتی ہے
زمانے بھر کے غم یا اک ترا غم
یہ غم ہوگا تو کتنے غم نہ ہوں گے
-
موضوع : غم
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
اگر تو اتفاقاً مل بھی جائے
تری فرقت کے صدمے کم نہ ہوں گے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
محبت کرنے والے کم نہ ہوں گے
تری محفل میں لیکن ہم نہ ہوں گے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
کہیں یہ ترک محبت کی ابتدا تو نہیں
وہ مجھ کو یاد کبھی اس قدر نہیں آئے
تمام عمر ترا انتظار ہم نے کیا
اس انتظار میں کس کس سے پیار ہم نے کیا
جب کبھی ہم نے کیا عشق پشیمان ہوئے
زندگی ہے تو ابھی اور پشیماں ہوں گے
غم زمانہ تری ظلمتیں ہی کیا کم تھیں
کہ بڑھ چلے ہیں اب ان گیسوؤں کے بھی سائے
-
موضوع : زلف
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ