Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Moid Rasheedi's Photo'

معید رشیدی

1988 | علی گڑہ, انڈیا

نئی نسل کے ممتاز شاعروں اور نقادوں میں شامل، ساہتیہ اکادمی ’یوا پرسکار‘ یافتہ

نئی نسل کے ممتاز شاعروں اور نقادوں میں شامل، ساہتیہ اکادمی ’یوا پرسکار‘ یافتہ

معید رشیدی کے اشعار

3.6K
Favorite

باعتبار

چند یادوں کے دیے تھوڑی تمنا کچھ خواب

زندگی تجھ سے زیادہ نہیں مانگا ہم نے

اس بار اجالوں نے مجھے گھیر لیا تھا

اس بار مری رات مرے ساتھ چلی ہے

مجھ کو پانے کی تمنا میں وہ غرقاب ہوا

میں نے ساحل کی تمنا میں اسے کھویا ہے

اے عقل نہیں آئیں گے باتوں میں تری ہم

نادان تھے نادان ہیں نادان رہیں گے

جو بچھڑ گیا وہ ملا نہیں یہ سوال تھا

جو ملا نہیں وہ بچھڑ گیا یہ کمال ہے

یہ ہجرتوں کے تماشے، یہ قرض رشتوں کے

میں خود کو جوڑتے رہنے میں ٹوٹ جاتا ہوں

وہ چاہتے ہیں کہ ہر بات مان لی جائے

اور ایک میں ہوں کہ ہر بات کاٹ دیتا ہوں

اتنا آساں نہیں لفظوں کو غزل کر لینا

شور کو شعر بنانے میں جگر لگتا ہے

لمحے لمحے سے بنی ہے یہ زمانے کی کتاب

نقطہ نقطہ یہاں صدیوں کا سفر لگتا ہے

زندگی ہم ترے کوچے میں چلے آئے تو ہیں

تیرے کوچے کی ہوا ہم سے خفا لگتی ہے

ہم یہی سمجھے تھے اک دل ہی تو ہے اپنے لیے

ہم کہاں سمجھے تھے اتنا سر پھرا ہو جائے گا

اس کو بھی کسی طرح بھروسا نہیں تھا

میں نے بھی کسی طور صفائی نہیں دی

زندگی آج ذرا ہنس کے گلے لگ مجھ سے

تیری آنکھوں میں ندامت نہیں دیکھی جاتی

اسی جواب کے رستے سوال آتے ہیں

اسی سوال میں سارا جواب ٹھہرا ہے

اب اس سے پہلے کہ رسوائی اپنے گھر آتی

تمہارے شہر سے ہم با ادب نکل آئے

خود کو برباد کر کے دیکھنا تھا

خود کو برباد کر کے دیکھ لیا

خواب میں توڑتا رہتا ہوں انا کی زنجیر

آنکھ کھلتی ہے تو دیوار نکل آتی ہے

ٹھہرے ہوئے پانی کا مقدر نہیں ہوتا

بہتے ہوئے پانی کا تقاضا ہے گزر جا

کوئی آتا ہے یا نہیں آتا

آج خود کو پکار کر دیکھیں

خوف ہے دھند بھری رات ہے تنہائی ہے

میرے کمرے میں ابھی رات ہے تنہائی ہے

عشق کرنے کے بعد بھی کچھ لوگ

یہ سمجھتے ہیں کچھ کیا ہی نہیں

اے عقل نہیں آئیں گے باتوں میں تری ہم

نادان تھے نادان ہیں نادان رہیں گے

دھوکا ہے نمائش ہے تماشا ہے گزر جا

یہ رونق بازار یہ دنیا ہے گزر جا

جانے کتنا وقت لگے گا خود سے باہر آنے میں

تنہائی کا شور بہت ہے شہروں کے ویرانے میں

آنکھوں میں شب اتر گئی خوابوں کا سلسلہ رہا

میں خود کو دیکھتا رہا میں خود کو سوچتا رہا

اب اعتبار نہیں میری جاں کسی کا نہیں

چراغ سب کے لیے ہے دھواں کسی کا نہیں

اپنے جذبات سے جدا ہونا

کتنا آسان ہے خدا ہونا

ایک کھڑکی کھلی رہتی ہے نظر میں ہر دم

ایک منظر پس منظر بھی نظر آتا ہے

شہر اب مانگتا ہے سانس بھی لینے کا حساب

زندگی مجھ سے قیامت کا سبب پوچھتی ہے

اپنی ذات سے آگے جانا ہے جس کو

اس کو برف سے پانی ہونا پڑتا ہے

تو مجھے زہر پلاتی ہے یہ تیرا شیوہ

اے مری رات تجھے خون پلایا میں نے

اس بار مری روح پہ تلوار چلی ہے

اس بار سنبھلنے میں ذرا دیر لگے گی

چین پڑتا ہی نہیں اور یہ دل

روز کہتا ہے کہ یوں ہے یوں ہے

اپنی تنہائی کو بازار سمجھتے رہے ہم

زندگی تجھ کو خریدار سمجھتے رہے ہم

زندگی ہم ترے کوچے میں چلے آئے تو ہیں

تیرے کوچے کی ہوا ہم سے خفا لگتی ہے

کچھ اجنبی رستوں سے چراغوں کی تھکن کا

بے نام سا رشتہ ہے تو بے نام ہی رہ جائے

اب کے وحشت نے مجھے روک لیا ہے ورنہ

پچھلے موسم کی طرح لوٹ کے گھر جانا تھا

ہم ترے شہر سے ملتے ہیں گزر جاتے ہیں

تجھ سے ملنے میں تو تلوار نکل آتی ہے

جب یہ جسم سلگتا ہے تو روح بھی جلنے لگتی ہے

پروانے کا عشق مکمل ہوتا ہے جل جانے میں

سانسوں میں کوئی خون سا دریا ہے کہ میں ہوں

سینے میں کوئی شور سا برپا ہے کہ تم ہو

بت تراشا تھا انہی ہاتھوں سے میں نے ایک دن

پر کسے معلوم تھا وہ بت خدا ہو جائے گا

یہ مرا شہر کہ جینے نہیں دیتا مجھ کو

اب ترا نام بھی لیتے ہوئے ڈر لگتا ہے

بہا لے جائے گی سب

بڑی پاگل ہوا ہے

یہ ہجرتوں کے تماشے یہ قرض رشتوں کے

میں خود کو جوڑتے رہنے میں ٹوٹ جاتا ہوں

ترے وصال کی رعنائیوں سے ڈرتا ہوں

مجھے تو ہجر کے آداب بھی نہیں معلوم

چھوٹی سی ایک بات کا افسانہ ہو گیا

چھوٹی سی ایک بات چھپانے سے رہ گئی

اب اختیار زمانے پہ ہے نہ اس دل پر

کمال یہ ہے کہ کوئی یہاں کسی کا نہیں

وہ چاہتے ہیں کہ ہر بات مان لی جائے

اور ایک میں ہوں کہ ہر بات کاٹ دیتا ہوں

اک نظر دیکھ مرے دل کی طرف جان مراد

آئنہ سینۂ صد چاک سے بہتر تو نہیں

ایک ہنگامہ شب و روز بپا رہتا ہے

خانۂ دل میں نہاں جیسے خدا رہتا ہے

Recitation

بولیے