منشی امیر اللہ تسلیم کے شعر
صبح ہوتی ہے شام ہوتی ہے
عمر یوں ہی تمام ہوتی ہے
آس کیا اب تو امید ناامیدی بھی نہیں
کون دے مجھ کو تسلی کون بہلائے مجھے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
ناصح خطا معاف سنیں کیا بہار میں
ہم اختیار میں ہیں نہ دل اختیار میں
دل لگی میں حسرت دل کچھ نکل جاتی تو ہے
بوسے لے لیتے ہیں ہم دو چار ہنستے بولتے
ہم نے پالا مدتوں پہلو میں ہم کوئی نہیں
تم نے دیکھا اک نظر سے دل تمہارا ہو گیا
جانے دے صبر و قرار و ہوش کو
تو کہاں اے بے قراری جائے گی
-
موضوع : بے قراری
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
خالی سہی بلا سے تسلی تو دل کو ہو
رہنے دو سامنے مرے ساغر شراب کا
داستان شوق دل ایسی نہیں تھی مختصر
جی لگا کر تم اگر سنتے میں کہتا اور بھی
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
کیا خبر مجھ کو خزاں کیا چیز ہے کیسی بہار
آنکھیں کھولیں آ کے میں نے خانۂ صیاد میں
عہد کے بعد لئے بوسے دہن کے اتنے
کہ لب زود پشیماں کو مکرنے نہ دیا
فکر ہے شوق کمر عشق دہاں پیدا کروں
چاہتا ہوں ایک دل میں دو مکاں پیدا کروں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
دل دھڑکتا ہے شب غم میں کہیں ایسا نہ ہو
مرگ بھی بن کر مزاج یار ترسائے مجھے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
بس کہ تھی رونے کی عادت وصل میں بھی یار سے
کہہ کے اپنا آپ حال آرزو رونے لگا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
عمر بھر رشک عدو ساتھ تھا کہتا کیا حال
وہ ملا بھی کبھی تنہا تو میں تنہا نہ ہوا