Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Rajinder Manchanda Bani's Photo'

راجیندر منچندا بانی

1932 - 1981 | دلی, انڈیا

جدید اردو غزل کی طاقت ور ترین آوازوں میں شامل

جدید اردو غزل کی طاقت ور ترین آوازوں میں شامل

راجیندر منچندا بانی کے اشعار

15.7K
Favorite

باعتبار

وہ ٹوٹتے ہوئے رشتوں کا حسن آخر تھا

کہ چپ سی لگ گئی دونوں کو بات کرتے ہوئے

اے دوست میں خاموش کسی ڈر سے نہیں تھا

قائل ہی تری بات کا اندر سے نہیں تھا

اوس سے پیاس کہاں بجھتی ہے

موسلا دھار برس میری جان

وہ ایک عکس کہ پل بھر نظر میں ٹھہرا تھا

تمام عمر کا اب سلسلہ ہے میرے لیے

کوئی بھی گھر میں سمجھتا نہ تھا مرے دکھ سکھ

ایک اجنبی کی طرح میں خود اپنے گھر میں تھا

بانیؔ ذرا سنبھل کے محبت کا موڑ کاٹ

اک حادثہ بھی تاک میں ہوگا یہیں کہیں

ڈھلے گی شام جہاں کچھ نظر نہ آئے گا

پھر اس کے بعد بہت یاد گھر کی آئے گی

ذرا چھوا تھا کہ بس پیڑ آ گرا مجھ پر

کہاں خبر تھی کہ اندر سے کھوکھلا ہے بہت

اداس شام کی یادوں بھری سلگتی ہوا

ہمیں پھر آج پرانے دیار لے آئی

آج کیا لوٹتے لمحات میسر آئے

یاد تم اپنی عنایات سے بڑھ کر آئے

دن کو دفتر میں اکیلا شب بھرے گھر میں اکیلا

میں کہ عکس منتشر ایک ایک منظر میں اکیلا

عجیب تجربہ تھا بھیڑ سے گزرنے کا

اسے بہانہ ملا مجھ سے بات کرنے کا

اس قدر خالی ہوا بیٹھا ہوں اپنی ذات میں

کوئی جھونکا آئے گا جانے کدھر لے جائے گا

مرے بنائے ہوئے بت میں روح پھونک دے اب

نہ ایک عمر کی محنت مری اکارت کر

جانے وہ کون تھا اور کس کو صدا دیتا تھا

اس سے بچھڑا ہے کوئی اتنا پتہ دیتا تھا

تو کوئی غم ہے تو دل میں جگہ بنا اپنی

تو اک صدا ہے تو احساس کی کماں سے نکل

میں چپ کھڑا تھا تعلق میں اختصار جو تھا

اسی نے بات بنائی وہ ہوشیار جو تھا

محبتیں نہ رہیں اس کے دل میں میرے لیے

مگر وہ ملتا تھا ہنس کر کہ وضع دار جو تھا

نہ جانے کل ہوں کہاں ساتھ اب ہوا کے ہیں

کہ ہم پرندے مقامات گم شدہ کے ہیں

ماضی سے ابھریں وہ زندہ تصویریں

اتر گیا سب نشہ نئے پرانے کا

اس اندھیرے میں نہ اک گام بھی رکنا یارو

اب تو اک دوسرے کی آہٹیں کام آئیں گی

بگولے اس کے سر پر چیختے تھے

مگر وہ آدمی چپ ذات کا تھا

وہ ہنستے کھیلتے اک لفظ کہہ گیا بانیؔ

مگر مرے لیے دفتر کھلا معانی کا

اس تماشے میں تأثر کوئی لانے کے لیے

قتل بانیؔ جسے ہونا تھا وہ کردار تھا میں

ہری سنہری خاک اڑانے والا میں

شفق شجر تصویر بنانے والا میں

مرے واسطے جانے کیا لائے گی

گئی ہے ہوا اک کھنڈر کی طرف

کوئی بھولی ہوئی شے طاق ہر منظر پہ رکھی تھی

ستارے چھت پہ رکھے تھے شکن بستر پہ رکھی تھی

وہی اک موسم سفاک تھا اندر بھی باہر بھی

عجب سازش لہو کی تھی عجب فتنہ ہوا کا تھا

چلو کہ جذبۂ اظہار چیخ میں تو ڈھلا

کسی طرح اسے آخر ادا بھی ہونا تھا

شامل ہوں قافلے میں مگر سر میں دھند ہے

شاید ہے کوئی راہ جدا بھی مرے لیے

راہ آساں دیکھ کر سب خوش تھے پھر میں نے کہا

سوچ لیجے ایک انداز نظر میرا بھی ہے

یاد تری جیسے کہ سر شام

دھند اتر جائے پانی میں

اڑ چلا وہ اک جدا خاکہ لیے سر میں اکیلا

صبح کا پہلا پرندہ آسماں بھر میں اکیلا

کسی کے لوٹنے کی جب صدا سنی تو کھلا

کہ میرے ساتھ کوئی اور بھی سفر میں تھا

تھی پاؤں میں کوئی زنجیر بچ گئے ورنہ

رم ہوا کا تماشا یہاں رہا ہے بہت

پیہم موج امکانی میں

اگلا پاؤں نئے پانی میں

کوئی گوشہ خواب کا سا ڈھونڈ ہی لیتے تھے ہم

شہر اپنا شہر بانیؔ بے اماں ایسا نہ تھا

قدم زمیں پہ نہ تھے راہ ہم بدلتے کیا

ہوا بندھی تھی یہاں پیٹھ پر سنبھلتے کیا

وہ لوگ جو کبھی باہر نہ گھر سے جھانکتے تھے

یہ شب انہیں بھی سر رہ گزار لے آئی

دمک رہا تھا بہت یوں تو پیرہن اس کا

ذرا سے لمس نے روشن کیا بدن اس کا

بین کرتی ہوئی سمتوں سے نہ ڈرنا بانیؔ

ایسی آوازیں تو اس راہ میں عام آئیں گی

پھیلتی جائے گی چاروں سمت اک خوش رونقی

ایک موسم میرے اندر سے نکلتا جائے گا

سلسلہ روشن تجسس کا ادھر میرا بھی ہے

اے ستارو اس خلا میں اک سفر میرا بھی ہے

کسی مقام سے کوئی خبر نہ آنے کی

کوئی جہاز زمیں پر نہ اب اترنے کا

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے