aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Mushafi Ghulam Hamdani's Photo'

مصحفی غلام ہمدانی

1747 - 1824 | لکھنؤ, انڈیا

اٹھارہویں صدی کے بڑے شاعروں میں شامل، میرتقی میر کے ہم عصر

اٹھارہویں صدی کے بڑے شاعروں میں شامل، میرتقی میر کے ہم عصر

مصحفی غلام ہمدانی کے اشعار

25.1K
Favorite

باعتبار

مصحفیؔ ہم تو یہ سمجھے تھے کہ ہوگا کوئی زخم

تیرے دل میں تو بہت کام رفو کا نکلا

تشریح

یہ مصحفیؔ کے مشہور اشعار میں سے ایک ہے۔ خیال نازک ہے اس لئے لوگ اسے پسند کرتے ہیں۔ اس شعر میں دو کردار ہیں ایک ہے مصحفیؔ سے گفتگو کرنے والا اور دوسرا خود مصحفی۔

ہم تو یہ سمجھتے تھے میں تعجب بھی اور اظہار افسوس بھی ’’ہو کوئی زخم‘‘ یعنی کوئی ایک آدھ عام سا زخم ہوگا جو خودبخود بھر جائے گا۔ رفو کرنے کے معنی ہیں پھٹے ہوئے کپڑے کو دھاگے سے مرمت کرنا۔ پھٹی ہوئی جگہ کو بھرنا۔ اردو شاعری میں ’’رفو‘‘ کا لفظ بہت استعمال ہوا ہے۔ اور اس سے مراد عاشق کے دل کے زخموں کی مرمت یعنی ٹانکے لگانا ہے۔

شاعر سے متکلم یعنی اس سے بات کرنے والا کہتا ہے اے مصحفیؔ! تم نے تو یہ جانا تھا کہ تمہارے دل میں کوئی زخم ہوگا جو خودبخود بھرجائے گا مگر جب میں نے اس میں جھانک کر دیکھا تومیں نے یہ پایا کہ تمہارے دل میں بہت سے زخم موجود ہیں جنہیں مرمت کی ضرورت ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ زخم عشق کے ہیں۔ کوئی اصلی زخم نہیں ہیں کہ جن پر ٹانکے لگائے جائیں جن پر مرہم رکھا جائے۔ اس لئے یہاں رفو سے مطلب یہ کہ ان زخموں کی مرمت تب ہی ہوگی جب شاعر کا محبوب اس کی طرف توجہ دے گا۔

اس طرح سے شعر کا مفہوم یہ نکلتا ہے اے مصحفی بظاہر تمہارے دل میں لگتا تھا کہ کوئی ایک آدھ زخم ہوگا جو خود بخود بھر جائے گا مگر دیکھنے پر معلوم ہواکہ دراصل تم نے عشق میں دل پر بہت زخم کھائے ہیں اور ان زخموں کی مرمت کرنا کوئی آسان کام نہیں البتہ تمہارا محبوب اگر تمہاری طرف لطف کی نگاہوں سے دیکھے گا تو یہ زخم بھر سکتے ہیں۔

شفق سوپوری

لوگ کہتے ہیں محبت میں اثر ہوتا ہے

کون سے شہر میں ہوتا ہے کدھر ہوتا ہے

بال اپنے بڑھاتے ہیں کس واسطے دیوانے

کیا شہر محبت میں حجام نہیں ہوتا

عید اب کے بھی گئی یوں ہی کسی نے نہ کہا

کہ ترے یار کو ہم تجھ سے ملا دیتے ہیں

چھیڑ مت ہر دم نہ آئینہ دکھا

اپنی صورت سے خفا بیٹھے ہیں ہم

وعدوں ہی پہ ہر روز مری جان نہ ٹالو

ہے عید کا دن اب تو گلے ہم کو لگا لو

دیکھ کر ہم کو نہ پردے میں تو چھپ جایا کر

ہم تو اپنے ہیں میاں غیر سے شرمایا کر

جو ملا اس نے بے وفائی کی

کچھ عجب رنگ ہے زمانے کا

حیراں ہوں اس قدر کہ شب وصل بھی مجھے

تو سامنے ہے اور ترا انتظار ہے

اے مصحفیؔ تو ان سے محبت نہ کیجیو

ظالم غضب ہی ہوتی ہیں یہ دلی والیاں

ہے عید کا دن آج تو لگ جاؤ گلے سے

جاتے ہو کہاں جان مری آ کے مقابل

آنکھوں کو پھوڑ ڈالوں یا دل کو توڑ ڈالوں

یا عشق کی پکڑ کر گردن مروڑ ڈالوں

اب مری بات جو مانے تو نہ لے عشق کا نام

تو نے دکھ اے دل ناکام بہت سا پایا

عید تو آ کے مرے جی کو جلاوے افسوس

جس کے آنے کی خوشی ہو وہ نہ آوے افسوس

دلی میں اپنا تھا جو کچھ اسباب رہ گیا

اک دل کو لے کے آئے ہیں اس سرزمیں سے ہم

آستیں اس نے جو کہنی تک چڑھائی وقت صبح

آ رہی سارے بدن کی بے حجابی ہاتھ میں

آساں نہیں دریائے محبت سے گزرنا

یاں نوح کی کشتی کو بھی طوفان کا ڈر ہے

کر کے زخمی تو مجھے سونپ گیا غیروں کو

کون رکھے گا مرے زخم پہ مرہم تجھ بن

حسرت پہ اس مسافر بے کس کی روئیے

جو تھک گیا ہو بیٹھ کے منزل کے سامنے

موسم ہولی ہے دن آئے ہیں رنگ اور راگ کے

ہم سے تم کچھ مانگنے آؤ بہانے پھاگ کے

اب خدا مغفرت کرے اس کی

میرؔ مرحوم تھا عجب کوئی

اک درد محبت ہے کہ جاتا نہیں ورنہ

جس درد کی ڈھونڈے کوئی دنیا میں دوا ہے

چمن کو آگ لگاوے ہے باغباں ہر روز

نیا بناؤں ہوں میں اپنا آشیاں ہر روز

کسی کے ہاتھ تو لگتا نہیں ہے اک عیار

کہاں تلک ترے پیچھے کوئی خراب پھرے

چراغ حسن یوسف جب ہو روشن

رہے پھر کس طرح زنداں اندھیرا

مصحفیؔ کیونکے چھپے ان سے مرا درد نہاں

یار تو بات کے انداز سے پا جاتے ہیں

گو کہ تو میرؔ سے ہوا بہتر

مصحفیؔ پھر بھی میرؔ میرؔ ہی ہے

اللہ رے تیرے سلسلۂ زلف کی کشش

جاتا ہے جی ادھر ہی کھنچا کائنات کا

ترے کوچے ہر بہانے مجھے دن سے رات کرنا

کبھی اس سے بات کرنا کبھی اس سے بات کرنا

مزے میں اب تلک بیٹھا میں اپنے ہونٹھ چاٹوں ہوں

لیا تھا خواب میں بوسہ جو یک شب سیب غبغب کا

لاکھ ہم شعر کہیں لاکھ عبارت لکھیں

بات وہ ہے جو ترے دل میں جگہ پاتی ہے

دلی ہوئی ہے ویراں سونے کھنڈر پڑے ہیں

ویران ہیں محلے سنسان گھر پڑے ہیں

چاہوں گا میں تم کو جو مجھے چاہو گے تم بھی

ہوتی ہے محبت تو محبت سے زیادہ

سادگی دیکھ کہ بوسے کی طمع رکھتا ہوں

جن لبوں سے کہ میسر نہیں دشنام مجھے

میں جن کو بات کرنا اے مصحفیؔ سکھایا

ہر بات میں وہ میری اب بات کاٹتے ہیں

ابھی آغاز محبت ہے کچھ اس کا انجام

تجھ کو معلوم ہے اے دیدۂ نم کیا ہوگا

اک دن تو لپٹ جائے تصور ہی سے تیرے

یہ بھی دل نامرد کو جرأت نہیں ملتی

آسماں کو نشانہ کرتے ہیں

تیر رکھتے ہیں جب کمان میں ہم

اے عشق جہاں ہے یار میرا

مجھ کو بھی اسی جگہ تو لے چل

اے کاش کوئی شمع کے لے جا کے مجھے پاس

یہ بات کہے اس سے کہ پروانہ ہے یہ بھی

کہئے جو جھوٹ تو ہم ہوتے ہیں کہہ کے رسوا

سچ کہئے تو زمانہ یارو نہیں ہے سچ کا

اس ہوا میں کر رہے ہیں ہم ترا ہی انتظار

آ کہیں جلدی سے ساقی شیشہ و ساغر سمیت

شوخیٔ حسن کے نظارے کی طاقت ہے کہاں

طفل ناداں ہوں میں بجلی سے دہل جاتا ہوں

مجھ کو یہ سوچ ہے جیتے ہیں وے کیوں کر یارب

اپنے معشوقوں سے جو شخص جدا رہتے ہیں

ہوش اڑ جائیں گے اے زلف پریشاں تیرے

گر میں احوال لکھا اپنی پریشانی کا

داغ دل شب کو جو بنتا ہے چراغ دہلیز

روشنی گھر میں مرے رہتی ہے اندر باہر

اے مصحفیؔ صد شکر ہوا وصل میسر

افطار کیا روزہ میں اس لب کے رطب سے

ان کو بھی ترے عشق نے بے پردہ پھرایا

جو پردہ نشیں عورتیں رسوا نہ ہوئیں تھیں

ڈال کر غنچوں کی مندری شاخ گل کے کان میں

اب کے ہولی میں بنانا گل کو جوگن اے صبا

آغوش کی حسرت کو بس دل ہی میں ماروں گا

اب ہاتھ تری خاطر پھیلاؤں تو کچھ کہنا

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے