Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Mushafi Ghulam Hamdani's Photo'

مصحفی غلام ہمدانی

1747 - 1824 | لکھنؤ, انڈیا

اٹھارہویں صدی کے بڑے شاعروں میں شامل، میرتقی میر کے ہم عصر

اٹھارہویں صدی کے بڑے شاعروں میں شامل، میرتقی میر کے ہم عصر

مصحفی غلام ہمدانی کے اشعار

28.3K
Favorite

باعتبار

گہہ تیر مارتا ہے گہہ سنگ پھینکتا ہے

وہ شوخ ہم پر اور ہم مثل ہدف کھڑے ہیں

مصحفیؔ ہر گھڑی جایا نہ کرو تم صاحب

اک تو عاشق ہو اور اس کوچے میں بدنام بھی ہو

مجھ سے جو میری زہرہ ملتی نہیں ہے اب تک

اے پیر چرخ سب یہ بد ذاتیاں ہیں تیری

مجھ کو یہ سوچ ہے جیتے ہیں وے کیوں کر یارب

اپنے معشوقوں سے جو شخص جدا رہتے ہیں

محنت پہ ٹک نظر کر صورت گر ازل نے

چالیس دن میں تیرا میم دہاں بنایا

تب جانوں میں کہ دین محمد کے ہیں حریف

جب روز حشر ہو رخ اہل فرنگ سرخ

کیا جانیے چمن میں کیا تازہ گل کھلا ہو

آئے ہیں آگ رکھ کر ہم اپنے آشیاں میں

کس کے مجروح گلستاں میں ہیں مدفوں جو ہنوز

غنچے آتے ہیں نظر صورت پیکاں مجھ کو

سمجھ لے عاشق و معشوق کی ہم آغوشی

عذاب اور تو کیا قبر کے فشار میں تھا

کشور دل اب مکان درد و داغ و یاس ہے

عشق کے حاکم نے بٹھلائے ہیں یاں تھانے کئی

سرک اے موج سلامت تو رہ ساحل لے

تجھ کو کیا کام جو کشتی مری طوفان میں ہے

مار نہیں ڈالتے ہیں یوں اس کو

آدمی سے خطا بھی ہوتی ہے

میں کر کے چلا باتیں اور اس شوخ نے ووہیں

پوچھا جو کسی نے تو کہا رہ گزری تھا

ریختہ گوئی کی بنیاد ولیؔ نے ڈالی

بعد ازاں خلق کو مرزاؔ سے ہے اور میرؔ سے فیض

واں لال پھڑکتا ہے امیروں کے قفس میں

یاں فاختہ حق گو ہے فقیروں کے قفس میں

شفا نصیب مرے کیوں کے ہو کہ اے یارو

رحیم دل ہے طبیب اور میں ہوں بد پرہیز

اللہ رے تیرے سلسلۂ زلف کی کشش

جاتا ہے جی ادھر ہی کھنچا کائنات کا

عشاق کا کچھ میں نے عالم ہی نیا دیکھا

اک آن میں جی اٹھیں اک آن میں مر جاویں

شب طبق میں آسماں کے گر پڑے تھے میرے اشک

کچھ ثوابت بن گئے کچھ ان سے سیارے ہوئے

ہے یہ فلک سفلہ وہ پھیکا سا فرنگی

رکھتا ہے مہ و خور سے جو پاس اپنے دو بسکٹ

اک دن تو لپٹ جائے تصور ہی سے تیرے

یہ بھی دل نامرد کو جرأت نہیں ملتی

اپنا تو طول عمر سے گھبرا گیا ہے جی

گھر پہنچیں ہم تمام بھی ہو یہ سفر کہیں

کچھ شعر و شاعری سے نہیں مجھ کو فائدہ

الا حصول کاوش بے جائے خلق ہے

اشک سے میرے بچے ہمسایہ کیوں کر گھر سمیت

بہہ گئی ہیں کشتیاں اس بحر میں لنگر سمیت

کیا کام کیا تم نے تھی یہ بھی ادا کوئی

پردے سے نکل آنا اور جی میں سما جانا

چھیڑے ہے اس کو غیر تو کہتا ہے اس سے یوں

کوئی کھڑا نہ ہو پس دیوار دیکھنا

راتوں کو آنکھ اٹھا کے ذرا دیکھ تو سہی

کیا شکلیں جلوہ گر ہیں فلک کے رواق میں

بس تو نے اپنے منہ سے جو پردہ اٹھا دیا

حسرت نکل گئی دل امیدوار کی

ایک نالے پہ ہے معاش اپنی

ہم غریبوں کی ہے یہی معراج

جان جانی ہے مری اے بت کم سن تجھ پر

مر ہی جاؤں گا گلا کاٹ کے اک دن تجھ پر

دل اور سیہ ہو گئے ماہ رمضاں میں

اک حوض ہے آئینۂ نیرنگ زمیں پر

عالم کو اک ہلاک کیا اس نے مصحفیؔ

دنیا میں اس قدر بھی کوئی خوبرو نہ ہو

ہر دم پکارتے ہو کنائے سے کیا میاں

جاؤ جی بیٹھو او بے ہمارا لقب نہیں

جب دل کا جہاز اپنا تباہی میں پڑے ہے

لے دوڑیں ہیں آنسو وہیں آنکھوں کی غرابیں

اے مصحفیؔ اسے بھی رکھتا ہے شاد جی میں

ہر دم وہ میرا کہنا کیا چھاتیاں ہیں تیری

ترے کوچے ہر بہانے مجھے دن سے رات کرنا

کبھی اس سے بات کرنا کبھی اس سے بات کرنا

مصحفیؔ فارسی کو طاق پہ رکھ

اب ہے اشعار ہندوی کا رواج

ہوتا ہے مسافر کو دوراہے میں توقف

رہ ایک ہے اٹھ جائے جو شک دیر و حرم کا

یاں تک کیا میں گریہ کہ خوباں کے عشق میں

ساتھ آبرو کے اپنی گئی آبروئے چشم

ٹھٹھ کی ٹھٹھ اتنی چلی آتی ہے یہ کاہے کو

لوگ اتنے تری مجلس میں سما سکتے ہیں

اس کے در پر میں گیا سانگ بنائے تو کہا

چل بے چل دور ہو کیا لے کے فقیری آیا

حضرت عشق نے دونوں کو کیا خانہ خراب

برہمن بت کدہ اور شیخ حرم بھول گئے

پایۂ تخت سلیماں کا ہے شاعر مصحفیؔ

ہے اسی کے خاتم دست سلیماں ہاتھ میں

اس نے گالی مجھے دی ہو کے عتاب آلودہ

اور میں سادہ اسے لطف زبانی سمجھا

تین حصے ہیں زمیں کے غرق دریائے محیط

ربع مسکوں میں کچھ آبادی ہے کچھ ویرانہ ہے

جی جس کو چاہتا تھا اسی سے ملا دیا

دل کی کشش نے کی یہ کرامات راہ میں

حسرت پہ اس مسافر بے کس کی روئیے

جو تھک گیا ہو بیٹھ کے منزل کے سامنے

عکس سے اپنے اگر راہ نہیں تم کو تو جان

یہ اشارے سے پھر آئینے میں کیا ہوتے ہیں

کوچۂ یار میں رہنے سے نہیں اور حصول

عشق ہے مجھ کو اک اس کے در و دیوار کے ساتھ

تن تو کہاں ہے شعلۂ فانوس کی طرح

اک آگ سی بھری ہے مرے پیرہن کے بیچ

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے