وسیم بریلوی کے اشعار
اپنے چہرے سے جو ظاہر ہے چھپائیں کیسے
تیری مرضی کے مطابق نظر آئیں کیسے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
جہاں رہے گا وہیں روشنی لٹائے گا
کسی چراغ کا اپنا مکاں نہیں ہوتا
تشریح
اس شعر میں کئی تلازمات ایسے ہیں جن سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وسیم بریلوی شعر میں معنی کے ساتھ کیفیت پیدا کرنے کے فن سے واقف ہیں۔ ’جہاں‘ کی مناسبت سے ’وہیں‘، اور ان دونوں کی رعایت سے ’مکاں‘، ’چراغ‘ کی مناسبت سے ’روشنی‘ اور اس سے بڑھ کر کسی، یہ سب ایسے تلازمات ہیں جن سے شعر میں معنی آفرینی کا عنصر پیدا ہوا ہے۔
شعر کے معنیٔ قریب تو یہ ہوسکتے ہیں کہ چراغ اپنی روشنی سے کسی ایک مکاں کو روشن نہیں کرتا ہے، بلکہ جہاں جلتا ہے وہاں کی فضا کو منور کرتا ہے۔ اس شعر میں ایک لفظ ’مکاں‘مرکزی حیثیت کا حامل ہے۔ مکاں سے یہاں مراد محض کوئی خاص گھر نہیں بلکہ اسپیس ہے۔
اب آئیے شعر کے معنیٔ بعید پر روشنی ڈالتے ہیں۔ دراصل شعر میں ’چراغ‘، ’روشنی‘ اور ’مکاں‘ کو استعاراتی حیثیت حاصل ہے۔ چراغ استعارہ ہے نیک اور بھلے آدمی کا، اس کی مناسبت سے روشنی استعارہ ہےنیکی اور بھلائی کا۔ اس طرح شعر کا مفہوم یہ بنتا ہے کہ نیک آدمی کسی خاص جگہ نیکی اور بھلائی پھیلانے کے لئے پیدا نہیں ہوتے بلکہ ان کا کوئی خاص مکان نہیں ہوتا اور یہ اسپیس کے تصور سے بہت آگے کے لوگ ہیں۔ بس شرط یہ ہے کہ آدمی بھلا ہو۔ اگر ایسا ہے تو بھلائی ہر جگہ پھیل جاتی ہے۔
شفق سوپوری
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
آسماں اتنی بلندی پہ جو اتراتا ہے
بھول جاتا ہے زمیں سے ہی نظر آتا ہے
دکھ اپنا اگر ہم کو بتانا نہیں آتا
تم کو بھی تو اندازہ لگانا نہیں آتا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
تجھے پانے کی کوشش میں کچھ اتنا کھو چکا ہوں میں
کہ تو مل بھی اگر جائے تو اب ملنے کا غم ہوگا
رات تو وقت کی پابند ہے ڈھل جائے گی
دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے
ویسے تو اک آنسو ہی بہا کر مجھے لے جائے
ایسے کوئی طوفان ہلا بھی نہیں سکتا
-
موضوع : آنسو
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
تم آ گئے ہو، تو کچھ چاندنی سی باتیں ہوں
زمیں پہ چاند کہاں روز روز اترتا ہے
-
موضوع : استقبال
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
شرطیں لگائی جاتی نہیں دوستی کے ساتھ
کیجے مجھے قبول مری ہر کمی کے ساتھ
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
مسلسل حادثوں سے بس مجھے اتنی شکایت ہے
کہ یہ آنسو بہانے کی بھی تو مہلت نہیں دیتے
پھول تو پھول ہیں آنکھوں سے گھرے رہتے ہیں
کانٹے بیکار حفاظت میں لگے رہتے ہیں
محبت میں بچھڑنے کا ہنر سب کو نہیں آتا
کسی کو چھوڑنا ہو تو ملاقاتیں بڑی کرنا
شام تک صبح کی نظروں سے اتر جاتے ہیں
اتنے سمجھوتوں پہ جیتے ہیں کہ مر جاتے ہیں
-
موضوع : شام
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
اسی کو جینے کا حق ہے جو اس زمانے میں
ادھر کا لگتا رہے اور ادھر کا ہو جائے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
ایسے رشتے کا بھرم رکھنا کوئی کھیل نہیں
تیرا ہونا بھی نہیں اور ترا کہلانا بھی
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
ہمارے گھر کا پتا پوچھنے سے کیا حاصل
اداسیوں کی کوئی شہریت نہیں ہوتی
میں نے چاہا ہے تجھے عام سے انساں کی طرح
تو مرا خواب نہیں ہے جو بکھر جائے گا
جھوٹ والے کہیں سے کہیں بڑھ گئے
اور میں تھا کہ سچ بولتا رہ گیا
-
موضوع : سچ
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
نہ پانے سے کسی کے ہے نہ کچھ کھونے سے مطلب ہے
یہ دنیا ہے اسے تو کچھ نہ کچھ ہونے سے مطلب ہے
وہ میرے گھر نہیں آتا میں اس کے گھر نہیں جاتا
مگر ان احتیاطوں سے تعلق مر نہیں جاتا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
شرافتوں کی یہاں کوئی اہمیت ہی نہیں
کسی کا کچھ نہ بگاڑو تو کون ڈرتا ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
میں بھی اسے کھونے کا ہنر سیکھ نہ پایا
اس کو بھی مجھے چھوڑ کے جانا نہیں آتا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
میں جن دنوں ترے بارے میں سوچتا ہوں بہت
انہیں دنوں تو یہ دنیا سمجھ میں آتی ہے
سبھی رشتے گلابوں کی طرح خوشبو نہیں دیتے
کچھ ایسے بھی تو ہوتے ہیں جو کانٹے چھوڑ جاتے ہیں
چراغ گھر کا ہو محفل کا ہو کہ مندر کا
ہوا کے پاس کوئی مصلحت نہیں ہوتی
کوئی اشارہ دلاسا نہ کوئی وعدہ مگر
جب آئی شام ترا انتظار کرنے لگے
ہم یہ تو نہیں کہتے کہ ہم تجھ سے بڑے ہیں
لیکن یہ بہت ہے کہ ترے ساتھ کھڑے ہیں
کسی سے کوئی بھی امید رکھنا چھوڑ کر دیکھو
تو یہ رشتہ نبھانا کس قدر آسان ہو جائے
وہ پوچھتا تھا مری آنکھ بھیگنے کا سبب
مجھے بہانہ بنانا بھی تو نہیں آیا
-
موضوع : بہانہ
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
کچھ ہے کہ جو گھر دے نہیں پاتا ہے کسی کو
ورنہ کوئی ایسے تو سفر میں نہیں رہتا
ان سے کہہ دو مجھے خاموش ہی رہنے دے وسیمؔ
لب پہ آئے گی تو ہر بات گراں گزرے گی
تحریر سے ورنہ مری کیا ہو نہیں سکتا
اک تو ہے جو لفظوں میں ادا ہو نہیں سکتا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
کسی نے رکھ دیے ممتا بھرے دو ہاتھ کیا سر پر
مرے اندر کوئی بچہ بلک کر رونے لگتا ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
ذرا سا قطرہ کہیں آج اگر ابھرتا ہے
سمندروں ہی کے لہجے میں بات کرتا ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
بھرے مکاں کا بھی اپنا نشہ ہے کیا جانے
شراب خانے میں راتیں گزارنے والا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے