Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

بے خودی پر اشعار

بے خودی شعور کی حالت

سے نکل جانے کی ایک کیفیت ہے ۔ ایک عاشق بے خودی کو کس طرح جیتا ہے اور اس کے ذریعے وہ عشق کے کن کن مقامات کی سیر کرتا ہے اس کا دلچسپ بیان ان اشعار میں ہے ۔ اس طرح کے شعروں کی ایک خاص جہت یہ بھی ہے کہ ان کے ذریعے کلاسیکی عاشق کی شخصیت کی پرتیں کھلتی ہیں ۔

اے بے خودی دل مجھے یہ بھی خبر نہیں

کس دن بہار آئی میں دیوانہ کب ہوا

اسد علی خان قلق

مے سے غرض نشاط ہے کس رو سیاہ کو

اک گونہ بے خودی مجھے دن رات چاہیئے

مرزا غالب

پا بہ گل بے خودیٔ شوق سے میں رہتا تھا

کوچۂ یار میں حالت مری دیوار کی تھی

حیدر علی آتش

اللہ رے بے خودی کہ ترے پاس بیٹھ کر

تیرا ہی انتظار کیا ہے کبھی کبھی

نریش کمار شاد

اب میں حدود ہوش و خرد سے گزر گیا

ٹھکراؤ چاہے پیار کرو میں نشے میں ہوں

گنیش بہاری طرز

اللہ رے بے خودی کہ چلا جا رہا ہوں میں

منزل کو دیکھتا ہوا کچھ سوچتا ہوا

معین احسن جذبی

بے خودی کوچۂ جاناں میں لیے جاتی ہے

دیکھیے کون مجھے میری خبر دیتا ہے

مرزا محمد ہادی عزیز لکھنوی

اے بے خودی سلام تجھے تیرا شکریہ

دنیا بھی مست مست ہے عقبیٰ بھی مست مست

جاوید صبا

بے خودی لے گئی کہاں ہم کو

دیر سے انتظار ہے اپنا

میر تقی میر

کیا ہے جب سیں عمل بے خودی کے حاکم نے

خرد نگر کی رعیت ہوئی ہے رو بگریز

سراج اورنگ آبادی

اے زندگی جنوں نہ سہی بے خودی سہی

تو کچھ بھی اپنی عقل سے پاگل اٹھا تو لا

ناطق گلاوٹھی

میرے اور یار کے پردہ تو نہیں کچھ لیکن

بے خودی بیچ میں دیوار ہوا چاہتی ہے

مصحفی غلام ہمدانی

بے خودی نے کر دیا جذبات دل سے بے نیاز

اب ترا ملنا نہ ملنا سب برابر ہو گیا

ناز وائی

بے خودی میں ہم تو تیرا در سمجھ کر جھک گئے

اب خدا معلوم کعبہ تھا کہ وہ بت خانہ تھا

طالب جے پوری

اب ان حدود میں لایا ہے انتظار مجھے

وہ آ بھی جائیں تو آئے نہ اعتبار مجھے

خمار بارہ بنکوی

اچھا خاصا بیٹھے بیٹھے گم ہو جاتا ہوں

اب میں اکثر میں نہیں رہتا تم ہو جاتا ہوں

انور شعور

سر پائے خم پہ چاہیئے ہنگام بے خودی

رو سوئے قبلہ وقت مناجات چاہیئے

مرزا غالب

اتنی پی ہے کہ بعد توبہ بھی

بے پیے بے خودی سی رہتی ہے

ریاضؔ خیرآبادی

یہاں کوئی نہ جی سکا نہ جی سکے گا ہوش میں

مٹا دے نام ہوش کا شراب لا شراب لا

مدن پال

مئے حیات میں شامل ہے تلخیٔ دوراں

جبھی تو پی کے ترستے ہیں بے خودی کے لئے

زہرا نگاہ

کمال عشق تو دیکھو وہ آ گئے لیکن

وہی ہے شوق وہی انتظار باقی ہے

جلیل مانک پوری

ابتدا سے آج تک ناطقؔ کی یہ ہے سرگزشت

پہلے چپ تھا پھر ہوا دیوانہ اب بے ہوش ہے

ناطق لکھنوی

چلے تو پاؤں کے نیچے کچل گئی کوئی شے

نشے کی جھونک میں دیکھا نہیں کہ دنیا ہے

شہاب جعفری

جس میں ہو یاد بھی تری شامل

ہائے اس بے خودی کو کیا کہیے

فراق گورکھپوری

پاس آداب وفا تھا کہ شکستہ پائی

بے خودی میں بھی نہ ہم حد سے گزرنے پائے

رضا ہمدانی

اللہ رے بے خودی کہ ترے گھر کے آس پاس

ہر در پہ دی صدا ترے در کے خیال میں

جگن ناتھ آزاد

ہاں کیف بے خودی کی وہ ساعت بھی یاد ہے

محسوس کر رہا تھا خدا ہو گیا ہوں میں

حفیظ جالندھری

اتنی پی جائے کہ مٹ جائے میں اور تو کی تمیز

یعنی یہ ہوش کی دیوار گرا دی جائے

فرحت شہزاد

عمر جو بے خودی میں گزری ہے

بس وہی آگہی میں گزری ہے

گلزار دہلوی

جاں بلب لمحۂ تسکیں مری قسمت ہے شمیمؔ

بے خودی پھر مجھے دیوانہ بناتی کیوں ہے

سخاوت شمیم

کہہ دیں تم سے کون ہیں کیا ہیں کہاں رہتے ہیں ہم

بے خودوں کو اپنے جب تم ہوش میں آنے تو دو

جلالؔ مانکپوری

شہ بے خودی نے عطا کیا مجھے اب لباس برہنگی

نہ خرد کی بخیہ گری رہی نہ جنوں کی پردہ دری رہی

سراج اورنگ آبادی

وہ بے خودی تھی محبت کی بے رخی تو نہ تھی

پہ اس کو ترک تعلق کو اک بہانہ ہوا

سلیم احمد

دن رات مے کدے میں گزرتی تھی زندگی

اخترؔ وہ بے خودی کے زمانے کدھر گئے

اختر شیرانی

کتنا مشکل ہے خود بخود رونا

بے خودی سے رہا کرے کوئی

اثر اکبرآبادی

کہاں تک اے واعظو یہ جھگڑے مزے اٹھانے دو بے خودی کے

جو ہوش میں ہوں تو میں یہ سمجھوں حرام کیا ہے حلال کیا ہے

جلیل مانک پوری

عالم سے بے خبر بھی ہوں عالم میں بھی ہوں میں

ساقی نے اس مقام کو آساں بنا دیا

اصغر گونڈوی

خواب میں نام ترا لے کے پکار اٹھتا ہوں

بے خودی میں بھی مجھے یاد تری یاد کی ہے

لالہ مادھو رام جوہر

بے خودی میں لے لیا بوسہ خطا کیجے معاف

یہ دل بیتاب کی ساری خطا تھی میں نہ تھا

میرزا ابوالمظفر ظفر

نہ تو ہوش سے تعارف نہ جنوں سے آشنائی

یہ کہاں پہنچ گئے ہیں تری بزم سے نکل کے

خمار بارہ بنکوی

میرے دل و دماغ پہ چھائے ہوئے ہو تم

ذرے کو آفتاب بنائے ہوئے ہو تم

اثر محبوب

گئی بہار مگر اپنی بے خودی ہے وہی

سمجھ رہا ہوں کہ اب تک بہار باقی ہے

مبارک عظیم آبادی

جز بے خودی گزر نہیں کوئے حبیب میں

گم ہو گیا جو میں تو ملا راستہ مجھے

جلیل مانک پوری

یہی تو کفر ہے یاران بے خودی کے حضور

جو کفر و دیں کا مرے یار امتیاز رہا

مرزا علی لطف

یہ کیسا نشہ ہے میں کس عجب خمار میں ہوں

تو آ کے جا بھی چکا ہے، میں انتظار میں ہوں

منیر نیازی

ہوش والوں کو خبر کیا بے خودی کیا چیز ہے

عشق کیجے پھر سمجھئے زندگی کیا چیز ہے

ندا فاضلی

چھوڑ کر کوچۂ مے خانہ طرف مسجد کے

میں تو دیوانہ نہیں ہوں جو چلوں ہوش کی راہ

بقا اللہ بقاؔ

تیرے خیال میں کبھی اس طرح کھو گئے

تیرا خیال بھی ہمیں اکثر نہیں رہا

جمال احسانی

وفور بے خودی میں رکھ دیا سر ان کے قدموں پر

وہ کہتے ہی رہے واصفؔ یہ محفل ہے یہ محفل ہے

واصف دہلوی

بے خودی بے سبب نہیں غالبؔ

کچھ تو ہے، جس کی پردہ داری ہے

مرزا غالب

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے