Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Zafar Iqbal's Photo'

ظفر اقبال

1933 | لاہور, پاکستان

ممتاز ترین جدید شاعروں میں معروف ۔ رجحان سازشاعر

ممتاز ترین جدید شاعروں میں معروف ۔ رجحان سازشاعر

ظفر اقبال کے اشعار

48.5K
Favorite

باعتبار

اب کے اس بزم میں کچھ اپنا پتہ بھی دینا

پاؤں پر پاؤں جو رکھنا تو دبا بھی دینا

ایسا ہے جیسے آنکھ کی پتلی کے وسط میں

نقشہ بنا ہوا ہے کسی خواب زار کا

وہ بہت چالاک ہے لیکن اگر ہمت کریں

پہلا پہلا جھوٹ ہے اس کو یقیں آ جائے گا

تجھ کو میری نہ مجھے تیری خبر جائے گی

عید اب کے بھی دبے پاؤں گزر جائے گی

روشنی اب راہ سے بھٹکا بھی دیتی ہے میاں

اس کی آنکھوں کی چمک نے مجھ کو بے گھر کر دیا

راستے ہیں کھلے ہوئے سارے

پھر بھی یہ زندگی رکی ہوئی ہے

چہرے سے جھاڑ پچھلے برس کی کدورتیں

دیوار سے پرانا کلینڈر اتار دے

اپنی یہ شان بغاوت کوئی دیکھے آ کر

منہ سے انکار بھی ہے اور سر بھی جھکائے ہوئے ہیں

وہ چہرہ ہاتھ میں لے کر کتاب کی صورت

ہر ایک لفظ ہر اک نقش کی ادا دیکھوں

لمبی تان کے سو جا اور

سسکی کو خراٹا کر

آگ جنگل میں لگی ہے دور دریاؤں کے پار

اور کوئی شہر میں پھرتا ہے گھبرایا ہوا

میں بکھر جاؤں گا زنجیر کی کڑیوں کی طرح

اور رہ جائے گی اس دشت میں جھنکار مری

رو میں آئے تو وہ خود گرمئ بازار ہوئے

ہم جنہیں ہاتھ لگا کر بھی گنہ گار ہوئے

گھر نیا برتن نئے کپڑے نئے

ان پرانے کاغذوں کا کیا کریں

اس کے آتے ہی نگاہوں کو جھکا لو ورنہ

دیکھ لو گے تو لپٹنے کو بھی جی چاہے گا

تری یاد میں جلسہ تعزیت

تجھے بھول جانے کا آغاز تھا

لگاتا پھر رہا ہوں عاشقوں پر کفر کے فتوے

ظفرؔ واعظ ہوں میں اور خدمت اسلام کرتا ہوں

آسماں پر کوئی تصویر بناتا ہوں ظفرؔ

کہ رہے ایک طرف اور لگے چاروں طرف

اندر کا زہر ناک اندھیرا ہی تھا بہت

سر پر تلی کھڑی ہے شب تار کس لیے

میں خواب سبز تھا دونوں کے درمیان ظفرؔ

کہ آسماں تھا سنہرا زمین بھوری تھی

باہر گلی میں چلتے ہوئے لوگ تھک گئے

تنہائیوں کا شور تھا خالی مکان میں

یوں محبت سے نہ دے میری محبت کا جواب

یہ سزا سخت ہے تھوڑی سی رعایت کر دے

یہ کیا فسوں ہے کہ صبح گریز کا پہلو

شب وصال تری بات بات سے نکلا

سفر پیچھے کی جانب ہے قدم آگے ہے میرا

میں بوڑھا ہوتا جاتا ہوں جواں ہونے کی خاطر

مرا معیار میری بھی سمجھ میں کچھ نہیں آتا

نئے لمحوں میں تصویریں پرانی مانگ لیتا ہوں

ہم پہ دنیا ہوئی سوار ظفرؔ

اور ہم ہیں سوار دنیا پر

کردار اس کو ڈھونڈتے پھرتے ہیں جا بجا

گم آ کے ہو گئی ہے کہانی مری طرف

یہ بھی ممکن ہے کہ اس کار گہہ دل میں ظفرؔ

کام کوئی کرے اور نام کسی کا لگ جائے

یوں بھی ہوتا ہے کہ یک دم کوئی اچھا لگ جائے

بات کچھ بھی نہ ہو اور دل میں تماشا لگ جائے

پوری آواز سے اک روز پکاروں تجھ کو

اور پھر میری زباں پر ترا تالا لگ جائے

حسن اس کا اسی مقام پہ ہے

یہ مسافر سفر نہیں کرتا

ہوا کے ساتھ جو اک بوسہ بھیجتا ہوں کبھی

تو شعلہ اس بدن پاک سے نکلتا ہے

بس ایک بار کسی نے گلے لگایا تھا

پھر اس کے بعد نہ میں تھا نہ میرا سایا تھا

وہ مجھ سے اپنا پتا پوچھنے کو آ نکلے

کہ جن سے میں نے خود اپنا سراغ پایا تھا

تم ہی بتلاؤ کہ اس کی قدر کیا ہوگی تمہیں

جو محبت مفت میں مل جائے آسانی کے ساتھ

اپنی مرضی سے بھی ہم نے کام کر ڈالے ہیں کچھ

لفظ کو لڑوا دیا ہے بیشتر معنی کے ساتھ

مجھے کچھ بھی نہیں معلوم اور اندر ہی اندر

لہو میں ایک دست رائیگاں پھیلا ہوا ہے

میں اندر سے کہیں تبدیل ہونا چاہتا تھا

پرانی کینچلی میں ہی نیا ہونا تھا مجھ کو

بھری رہے ابھی آنکھوں میں اس کے نام کی نیند

وہ خواب ہے تو یونہی دیکھنے سے گزرے گا

یہاں کسی کو بھی کچھ حسب آرزو نہ ملا

کسی کو ہم نہ ملے اور ہم کو تو نہ ملا

آخر ظفرؔ ہوا ہوں منظر سے خود ہی غائب

اسلوب خاص اپنا میں عام کرتے کرتے

تھکنا بھی لازمی تھا کچھ کام کرتے کرتے

کچھ اور تھک گیا ہوں آرام کرتے کرتے

وہ صورت دیکھ لی ہم نے تو پھر کچھ بھی نہ دیکھا

ابھی ورنہ پڑی تھی ایک دنیا دیکھنے کو

جس کا انکار ہتھیلی پہ لیے پھرتا ہوں

جانتا ہی نہیں انکار کا مطلب کیا ہے

پھر سر صبح کسی درد کے در وا کرنے

دھان کے کھیت سے اک موج ہوا آئی ہے

پتنگ اڑانے سے کیا منع کر سکے زاہد

کہ اس کی اپنی عبا میں پتنگ اڑتی ہے

پھر جا رکے گی بجھتے خرابوں کے دیس میں

سونی سلگتی سوچتی سنسان سی سڑک

اس کو آنا تھا کہ وہ مجھ کو بلاتا تھا کہیں

رات بھر بارش تھی اس کا رات بھر پیغام تھا

تم اپنی مستی میں آن ٹکرائے مجھ سے یک دم

ادھر سے میں بھی تو بے دھیانی میں جا رہا تھا

جدھر سے کھول کے بیٹھے تھے در اندھیرے کا

اسی طرف سے ہمیں روشنی بہت آئی

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے