مخمور سعیدی کے اشعار
ہو جائے جہاں شام وہیں ان کا بسیرا
آوارہ پرندوں کے ٹھکانے نہیں ہوتے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
میں اس کے وعدے کا اب بھی یقین کرتا ہوں
ہزار بار جسے آزما لیا میں نے
بتوں کو پوجنے والوں کو کیوں الزام دیتے ہو
ڈرو اس سے کہ جس نے ان کو اس قابل بنایا ہے
سرخیاں خون میں ڈوبی ہیں سب اخباروں کی
آج کے دن کوئی اخبار نہ دیکھا جائے
-
موضوع : اخبار
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
گھر میں رہا تھا کون کہ رخصت کرے ہمیں
چوکھٹ کو الوداع کہا اور چل پڑے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
کچھ یوں لگتا ہے ترے ساتھ ہی گزرا وہ بھی
ہم نے جو وقت ترے ساتھ گزارا ہی نہیں
غم و نشاط کی ہر رہ گزر میں تنہا ہوں
مجھے خبر ہے میں اپنے سفر میں تنہا ہوں
-
موضوع : تنہائی
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
یہ اپنے دل کی لگی کو بجھانے آتے ہیں
پرائی آگ میں جلتے نہیں ہیں پروانے
دل پہ اک غم کی گھٹا چھائی ہوئی تھی کب سے
آج ان سے جو ملے ٹوٹ کے برسات ہوئی
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
زباں پہ شکر و شکایت کے سو فسانے ہیں
مگر جو دل پہ گزرتی ہے کیا کہا جائے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
ان سے امید ملاقات کے بعد اے مخمورؔ
مدتوں تک نہ خود اپنے سے ملاقات ہوئی
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
کتنی دیواریں اٹھی ہیں ایک گھر کے درمیاں
گھر کہیں گم ہو گیا دیوار و در کے درمیاں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
راستے شہر کے سب بند ہوئے ہیں تم پر
گھر سے نکلو گے تو مخمورؔ کدھر جاؤ گے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
جانب کوچہ و بازار نہ دیکھا جائے
غور سے شہر کا کردار نہ دیکھا جائے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
اب آ گئے ہو تو ٹھہرو خرابۂ دل میں
یہ وہ جگہ ہے جہاں زندگی سنورتی ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے