تمام
تعارف
غزل179
شعر195
ای-کتاب129
ٹاپ ٢٠ شاعری 20
تصویری شاعری 36
آڈیو 45
ویڈیو 78
قطعہ2
قصہ5
بلاگ5
دیگر
نعت1
داغؔ دہلوی کے اشعار
کل تک تو آشنا تھے مگر آج غیر ہو
دو دن میں یہ مزاج ہے آگے کی خیر ہو
ساتھ شوخی کے کچھ حجاب بھی ہے
اس ادا کا کہیں جواب بھی ہے
مجھ کو ملا یہ شکوۂ دشنام پر جواب
آپ اس سے عشق کیجیے جس کی زباں نہ ہو
پھر گیا جب سے کوئی آ کے ہمارے در تک
گھر کے باہر ہی پڑے رہتے ہیں گھر چھوڑ دیا
حضرت داغؔ ہے یہ کوچۂ قاتل اٹھئے
جس جگہ بیٹھتے ہیں آپ تو جم جاتے ہیں
ساقیا تشنگی کی تاب نہیں
زہر دے دے اگر شراب نہیں
نہ سمجھا عمر گزری اس بت کافر کو سمجھاتے
پگھل کر موم ہو جاتا اگر پتھر کو سمجھاتے
سر مرا کاٹ کے پچھتائیے گا
جھوٹی پھر کس کی قسم کھایئے گا
شب وصل کی کیا کہوں داستاں
زباں تھک گئی گفتگو رہ گئی
شرکت غم بھی نہیں چاہتی غیرت میری
غیر کی ہو کے رہے یا شب فرقت میری
دنیا میں جانتا ہوں کہ جنت مجھے ملی
راحت اگر ذرا سی مصیبت میں مل گئی
دیکھنا حشر میں جب تم پہ مچل جاؤں گا
میں بھی کیا وعدہ تمہارا ہوں کہ ٹل جاؤں گا
ٹھوکر بھی راہ عشق میں کھانی ضرور ہے
چلتا نہیں ہوں راہ کو ہموار دیکھ کر
رہ گئے لاکھوں کلیجہ تھام کر
آنکھ جس جانب تمہاری اٹھ گئی
غش کھا کے داغؔ یار کے قدموں پہ گر پڑا
بے ہوش نے بھی کام کیا ہوشیار کا
اس لیے وصل سے انکار ہے ہم جان گئے
یہ نہ سمجھے کوئی کیا جلد کہا مان گئے
زاہد نہ کہہ بری یہ مستانے آدمی ہیں
تجھ کو لپٹ پڑیں گے دیوانے آدمی ہیں
آپ پچھتائیں نہیں جور سے توبہ نہ کریں
آپ کے سر کی قسم داغؔ کا حال اچھا ہے
طبیعت کوئی دن میں بھر جائے گی
چڑھی ہے یہ ندی اتر جائے گی
ناصح نے میرا حال جو مجھ سے بیاں کیا
آنسو ٹپک پڑے مرے بے اختیار آج
عرض احوال کو گلا سمجھے
کیا کہا میں نے آپ کیا سمجھے
ظالم نے کیا نکالی رفتار رفتہ رفتہ
اس چال پر چلے گی تلوار رفتہ رفتہ
میرؔ کا رنگ برتنا نہیں آساں اے داغؔ
اپنے دیواں سے ملا دیکھیے دیواں ان کا
-
موضوع : میر تقی میر
حسرتیں لے گئے اس بزم سے چلنے والے
ہاتھ ملتے ہی اٹھے عطر کے ملنے والے
دشمنوں سے دوستی غیروں سے یاری چاہئے
خاک کے پتلے بنے تو خاکساری چاہئے
لپٹ جاتے ہیں وہ بجلی کے ڈر سے
الٰہی یہ گھٹا دو دن تو برسے
چپ چاپ سنتی رہتی ہے پہروں شب فراق
تصویر یار کو ہے مری گفتگو پسند
عاشقی سے ملے گا اے زاہد
بندگی سے خدا نہیں ملتا
پھرتا ہے میرے دل میں کوئی حرف مدعا
قاصد سے کہہ دو اور نہ جائے ذرا سی دیر
لاکھ دینے کا ایک دینا تھا
دل بے مدعا دیا تو نے
نگہ نکلی نہ دل کی چور زلف عنبریں نکلی
ادھر لا ہاتھ مٹھی کھول یہ چوری یہیں نکلی
-
موضوع : ویلنٹائن ڈے
ہزاروں کام محبت میں ہیں مزے کے داغؔ
جو لوگ کچھ نہیں کرتے کمال کرتے ہیں
شب وصال ہے گل کر دو ان چراغوں کو
خوشی کی بزم میں کیا کام جلنے والوں کا
شبِ وصال یعنی محبوب سے ملاقات کی رات۔ گل کرنا یعنی بجھا دینا۔ اس شعر میں شبِ وصال کی مناسبت سے چراغ اور چراغ کی مناسبت سے گل کرنا۔ اور ’خوشی کی بزم میں‘ کی رعایت سے جلنے والے داغ دہلوی کی مضمون آفرینی کی عمدہ مثال ہے۔ شعر میں کئی کردار ہیں۔ ایک شعری کردار، دوسرا وہ( ایک یا بہت سے) جن سے شعری کردار مخاطب ہے۔ شعر میں جو طنز یہ لہجہ ہے اس نے مجموعی صورت حال کو مزید دلچسپ بنا دیا ہے۔اور جب ’ان چراغوں کو‘ کہا تو گویا کچھ مخصوص چراغوں کی طرف اشارہ کیا۔
شعر کے قریب کے معنی تو یہ ہیں کہ عاشق و معشوق کے ملن کی رات ہے، اس لئے چراغوں کو بجھا دو کیونکہ ایسی راتوں میں جلنے والوں کا کام نہیں۔ چراغ بجھانے کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی تھی کہ ملن کی رات میں جو بھی ہو وہ پردے میں رہے مگر جب یہ کہا کہ جلنے والوں کا کیا کام ہے تو شعر کا مفہوم ہی بدل دیا۔ دراصل جلنے والے استعارہ ہیں ان لوگوں کا جو شعری کردار اور اس کے محبوب کے ملن پر جلتے ہیں اور حسد کرتے ہیں۔ اسی لئے کہا ہے کہ ان حسد کرنے والوں کو اس بزم سے اٹھا دو۔
تشریح
شبِ وصال یعنی محبوب سے ملاقات کی رات۔ گل کرنا یعنی بجھا دینا۔ اس شعر میں شبِ وصال کی مناسبت سے چراغ اور چراغ کی مناسبت سے گل کرنا۔ اور ’خوشی کی بزم میں‘ کی رعایت سے جلنے والے داغ دہلوی کی مضمون آفرینی کی عمدہ مثال ہے۔ شعر میں کئی کردار ہیں۔ ایک شعری کردار، دوسرا وہ( ایک یا بہت سے) جن سے شعری کردار مخاطب ہے۔ شعر میں جو طنز یہ لہجہ ہے اس نے مجموعی صورت حال کو مزید دلچسپ بنا دیا ہے۔اور جب ’ان چراغوں کو‘ کہا تو گویا کچھ مخصوص چراغوں کی طرف اشارہ کیا۔
شعر کے قریب کے معنی تو یہ ہیں کہ عاشق و معشوق کے ملن کی رات ہے، اس لئے چراغوں کو بجھا دو کیونکہ ایسی راتوں میں جلنے والوں کا کام نہیں۔ چراغ بجھانے کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی تھی کہ ملن کی رات میں جو بھی ہو وہ پردے میں رہے مگر جب یہ کہا کہ جلنے والوں کا کیا کام ہے تو شعر کا مفہوم ہی بدل دیا۔ دراصل جلنے والے استعارہ ہیں ان لوگوں کا جو شعری کردار اور اس کے محبوب کے ملن پر جلتے ہیں اور حسد کرتے ہیں۔ اسی لئے کہا ہے کہ ان حسد کرنے والوں کو اس بزم سے اٹھا دو۔
شفق سوپوری
اک ادا مستانہ سر سے پاؤں تک چھائی ہوئی
اف تری کافر جوانی جوش پر آئی ہوئی
روح کس مست کی پیاسی گئی مے خانے سے
مے اڑی جاتی ہے ساقی ترے پیمانے سے
ابھی کمسن ہو رہنے دو کہیں کھو دو گے دل میرا
تمہارے ہی لیے رکھا ہے لے لینا جواں ہو کر
میں مر گیا تو خاک بھی ان کو نہ غم ہوا
کہتے ہیں ایک چاہنے والا تو کم ہوا
چاک ہو پردۂ وحشت مجھے منظور نہیں
ورنہ یہ ہاتھ گریبان سے کچھ دور نہیں
تم کو چاہا تو خطا کیا ہے بتا دو مجھ کو
دوسرا کوئی تو اپنا سا دکھا دو مجھ کو
یوں میرے ساتھ دفن دل بے قرار ہو
چھوٹا سا اک مزار کے اندر مزار ہو
آئینہ دیکھ کے یہ دیکھ سنورنے والے
تجھ پہ بے جا تو نہیں مرتے یہ مرنے والے