تمام
تعارف
ای-کتاب106
شعر192
غزل180
ٹاپ ٢٠ شاعری 20
قصہ5
آڈیو 45
ویڈیو 79
تصویری شاعری 37
بلاگ5
نعت1
قطعہ2
داغؔ دہلوی کے اشعار
تمہارا دل مرے دل کے برابر ہو نہیں سکتا
وہ شیشہ ہو نہیں سکتا یہ پتھر ہو نہیں سکتا
ملاتے ہو اسی کو خاک میں جو دل سے ملتا ہے
مری جاں چاہنے والا بڑی مشکل سے ملتا ہے
-
موضوع : مشہور اشعار
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
وفا کریں گے نباہیں گے بات مانیں گے
تمہیں بھی یاد ہے کچھ یہ کلام کس کا تھا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
دل دے تو اس مزاج کا پروردگار دے
جو رنج کی گھڑی بھی خوشی سے گزار دے
آئنہ دیکھ کے کہتے ہیں سنورنے والے
آج بے موت مریں گے مرے مرنے والے
سب لوگ جدھر وہ ہیں ادھر دیکھ رہے ہیں
ہم دیکھنے والوں کی نظر دیکھ رہے ہیں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
عاشقی سے ملے گا اے زاہد
بندگی سے خدا نہیں ملتا
خبر سن کر مرے مرنے کی وہ بولے رقیبوں سے
خدا بخشے بہت سی خوبیاں تھیں مرنے والے میں
غضب کیا ترے وعدے پہ اعتبار کیا
تمام رات قیامت کا انتظار کیا
شب وصال ہے گل کر دو ان چراغوں کو
خوشی کی بزم میں کیا کام جلنے والوں کا
شبِ وصال یعنی محبوب سے ملاقات کی رات۔ گل کرنا یعنی بجھا دینا۔ اس شعر میں شبِ وصال کی مناسبت سے چراغ اور چراغ کی مناسبت سے گل کرنا۔ اور ’خوشی کی بزم میں‘ کی رعایت سے جلنے والے داغ دہلوی کی مضمون آفرینی کی عمدہ مثال ہے۔ شعر میں کئی کردار ہیں۔ ایک شعری کردار، دوسرا وہ( ایک یا بہت سے) جن سے شعری کردار مخاطب ہے۔ شعر میں جو طنز یہ لہجہ ہے اس نے مجموعی صورت حال کو مزید دلچسپ بنا دیا ہے۔اور جب ’ان چراغوں کو‘ کہا تو گویا کچھ مخصوص چراغوں کی طرف اشارہ کیا۔
شعر کے قریب کے معنی تو یہ ہیں کہ عاشق و معشوق کے ملن کی رات ہے، اس لئے چراغوں کو بجھا دو کیونکہ ایسی راتوں میں جلنے والوں کا کام نہیں۔ چراغ بجھانے کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی تھی کہ ملن کی رات میں جو بھی ہو وہ پردے میں رہے مگر جب یہ کہا کہ جلنے والوں کا کیا کام ہے تو شعر کا مفہوم ہی بدل دیا۔ دراصل جلنے والے استعارہ ہیں ان لوگوں کا جو شعری کردار اور اس کے محبوب کے ملن پر جلتے ہیں اور حسد کرتے ہیں۔ اسی لئے کہا ہے کہ ان حسد کرنے والوں کو اس بزم سے اٹھا دو۔
تشریح
شبِ وصال یعنی محبوب سے ملاقات کی رات۔ گل کرنا یعنی بجھا دینا۔ اس شعر میں شبِ وصال کی مناسبت سے چراغ اور چراغ کی مناسبت سے گل کرنا۔ اور ’خوشی کی بزم میں‘ کی رعایت سے جلنے والے داغ دہلوی کی مضمون آفرینی کی عمدہ مثال ہے۔ شعر میں کئی کردار ہیں۔ ایک شعری کردار، دوسرا وہ( ایک یا بہت سے) جن سے شعری کردار مخاطب ہے۔ شعر میں جو طنز یہ لہجہ ہے اس نے مجموعی صورت حال کو مزید دلچسپ بنا دیا ہے۔اور جب ’ان چراغوں کو‘ کہا تو گویا کچھ مخصوص چراغوں کی طرف اشارہ کیا۔
شعر کے قریب کے معنی تو یہ ہیں کہ عاشق و معشوق کے ملن کی رات ہے، اس لئے چراغوں کو بجھا دو کیونکہ ایسی راتوں میں جلنے والوں کا کام نہیں۔ چراغ بجھانے کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی تھی کہ ملن کی رات میں جو بھی ہو وہ پردے میں رہے مگر جب یہ کہا کہ جلنے والوں کا کیا کام ہے تو شعر کا مفہوم ہی بدل دیا۔ دراصل جلنے والے استعارہ ہیں ان لوگوں کا جو شعری کردار اور اس کے محبوب کے ملن پر جلتے ہیں اور حسد کرتے ہیں۔ اسی لئے کہا ہے کہ ان حسد کرنے والوں کو اس بزم سے اٹھا دو۔
شفق سوپوری
خوب پردہ ہے کہ چلمن سے لگے بیٹھے ہیں
صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں
-
موضوع : نقاب
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
دی شب وصل موذن نے اذاں پچھلی رات
ہائے کم بخت کو کس وقت خدا یاد آیا
-
موضوع : مشہور اشعار
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغؔ
ہندوستاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے
-
موضوع : اردو
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
جس میں لاکھوں برس کی حوریں ہوں
ایسی جنت کو کیا کرے کوئی
-
موضوع : جنت
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
لے چلا جان مری روٹھ کے جانا تیرا
ایسے آنے سے تو بہتر تھا نہ آنا تیرا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
نہیں کھیل اے داغؔ یاروں سے کہہ دو
کہ آتی ہے اردو زباں آتے آتے
-
موضوع : اردو
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
دل لے کے مفت کہتے ہیں کچھ کام کا نہیں
الٹی شکایتیں ہوئیں احسان تو گیا
-
موضوع : دل
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
بڑا مزہ ہو جو محشر میں ہم کریں شکوہ
وہ منتوں سے کہیں چپ رہو خدا کے لیے
چپ چاپ سنتی رہتی ہے پہروں شب فراق
تصویر یار کو ہے مری گفتگو پسند
رہا نہ دل میں وہ بے درد اور درد رہا
مقیم کون ہوا ہے مقام کس کا تھا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
یہ تو نہیں کہ تم سا جہاں میں حسیں نہیں
اس دل کو کیا کروں یہ بہلتا کہیں نہیں
کہنے دیتی نہیں کچھ منہ سے محبت میری
لب پہ رہ جاتی ہے آ آ کے شکایت میری
آؤ مل جاؤ کہ یہ وقت نہ پاؤ گے کبھی
میں بھی ہمراہ زمانہ کے بدل جاؤں گا
لطف مے تجھ سے کیا کہوں زاہد
ہائے کم بخت تو نے پی ہی نہیں
-
موضوع : شراب
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
ہزار بار جو مانگا کرو تو کیا حاصل
دعا وہی ہے جو دل سے کبھی نکلتی ہے
-
موضوع : دعا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
رخ روشن کے آگے شمع رکھ کر وہ یہ کہتے ہیں
ادھر جاتا ہے دیکھیں یا ادھر پروانہ آتا ہے
عرض احوال کو گلا سمجھے
کیا کہا میں نے آپ کیا سمجھے
فلک دیتا ہے جن کو عیش ان کو غم بھی ہوتے ہیں
جہاں بجتے ہیں نقارے وہاں ماتم بھی ہوتا ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
ہاتھ رکھ کر جو وہ پوچھے دل بیتاب کا حال
ہو بھی آرام تو کہہ دوں مجھے آرام نہیں
تم کو چاہا تو خطا کیا ہے بتا دو مجھ کو
دوسرا کوئی تو اپنا سا دکھا دو مجھ کو
ناامیدی بڑھ گئی ہے اس قدر
آرزو کی آرزو ہونے لگی
کوئی نام و نشاں پوچھے تو اے قاصد بتا دینا
تخلص داغؔ ہے وہ عاشقوں کے دل میں رہتے ہیں
خاطر سے یا لحاظ سے میں مان تو گیا
جھوٹی قسم سے آپ کا ایمان تو گیا
-
موضوع : وعدہ
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
ساتھ شوخی کے کچھ حجاب بھی ہے
اس ادا کا کہیں جواب بھی ہے
حضرت داغ جہاں بیٹھ گئے بیٹھ گئے
اور ہوں گے تری محفل سے ابھرنے والے