Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

خورشید طلب کے اشعار

باعتبار

خدا نے بخشا ہے کیا ظرف موم بتی کو

پگھلتے رہنا مگر ساری رات چپ رہنا

ہمیں ہر وقت یہ احساس دامن گیر رہتا ہے

پڑے ہیں ڈھیر سارے کام اور مہلت ذرا سی ہے

روز دیوار میں چن دیتا ہوں میں اپنی انا

روز وہ توڑ کے دیوار نکل آتی ہے

کوئی چراغ جلاتا نہیں سلیقے سے

مگر سبھی کو شکایت ہوا سے ہوتی ہے

عزیزو آؤ اب اک الوداعی جشن کر لیں

کہ اس کے بعد اک لمبا سفر افسوس کا ہے

ہوا سے کہہ دو کہ کچھ دیر کو ٹھہر جائے

خجل ہماری عبارت ہوا سے ہوتی ہے

زمینیں تنگ ہوئی جا رہی ہیں دل کی طرح

ہم اب مکان نہیں مقبرہ بناتے ہیں

کہ ہم بنے ہی نہ تھے ایک دوسرے کے لیے

اب اس یقین کو جینا حیات کرتے ہوئے

ہوا تو ہے ہی مخالف مجھے ڈراتا ہے کیا

ہوا سے پوچھ کے کوئی دیئے جلاتا ہے کیا

آئیے بیچ کی دیوار گرا دیتے ہیں

کب سے اک مسئلہ بے کار میں الجھا ہوا ہے

اس نے آ کر ہاتھ ماتھے پر رکھا

اور منٹوں میں بخار اڑتا ہوا

آج دریا میں عجب شور عجب ہلچل ہے

کس کی کشتی نے قدم آب رواں پر رکھا

زندگی میں جو تمہیں خود سے زیادہ تھے عزیز

ان سے ملنے کیا کبھی جاتے ہو قبرستان بھی

کبھی دماغ کو خاطر میں ہم نے لایا نہیں

ہم اہل دل تھے ہمیشہ رہے خسارے میں

طلبؔ بڑی ہی اذیت کا کام ہوتا ہے

بکھرتے ٹوٹتے رشتوں کا بوجھ ڈھونا بھی

کہیں بھی جائیں کسی شہر میں سکونت ہو

ہم اپنی طرز کی آب و ہوا بناتے ہیں

بہت نقصان ہوتا ہے

زیادہ ہوشیاری میں

سب نے دیکھا اور سب خاموش تھے

ایک صوفی کا مزار اڑتا ہوا

مری مشکل مری مشکل نہیں ہے

وسیلہ تیری آسانی کا میں ہوں

سب ایک دھند لیے پھر رہے ہیں آنکھوں میں

کسی کے چہرے پہ ماضی نہ حال دیکھتا ہوں

ہر ایک عہد نے لکھا ہے اپنا نامۂ شوق

کسی نے خوں سے لکھا ہے کسی نے آنسو سے

Recitation

بولیے