Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Zeb Ghauri's Photo'

زیب غوری

1928 - 1985 | کانپور, انڈیا

ہندوستان کے ممتاز ترین جدید شاعروں میں نمایاں

ہندوستان کے ممتاز ترین جدید شاعروں میں نمایاں

زیب غوری کے اشعار

27.1K
Favorite

باعتبار

بڑے عذاب میں ہوں مجھ کو جان بھی ہے عزیز

ستم کو دیکھ کے چپ بھی رہا نہیں جاتا

زخم لگا کر اس کا بھی کچھ ہاتھ کھلا

میں بھی دھوکا کھا کر کچھ چالاک ہوا

دل ہے کہ تری یاد سے خالی نہیں رہتا

شاید ہی کبھی میں نے تجھے یاد کیا ہو

مری جگہ کوئی آئینہ رکھ لیا ہوتا

نہ جانے تیرے تماشے میں میرا کام ہے کیا

جتنا دیکھو اسے تھکتی نہیں آنکھیں ورنہ

ختم ہو جاتا ہے ہر حسن کہانی کی طرح

ادھوری چھوڑ کے تصویر مر گیا وہ زیبؔ

کوئی بھی رنگ میسر نہ تھا لہو کے سوا

دل کو سنبھالے ہنستا بولتا رہتا ہوں لیکن

سچ پوچھو تو زیبؔ طبیعت ٹھیک نہیں ہوتی

گھسیٹتے ہوئے خود کو پھرو گے زیبؔ کہاں

چلو کہ خاک کو دے آئیں یہ بدن اس کا

جاگ کے میرے ساتھ سمندر راتیں کرتا ہے

جب سب لوگ چلے جائیں تو باتیں کرتا ہے

یہ کم ہے کیا کہ مرے پاس بیٹھا رہتا ہے

وہ جب تلک مرے دل کو دکھا نہیں جاتا

زخم ہی تیرا مقدر ہیں دل تجھ کو کون سنبھالے گا

اے میرے بچپن کے ساتھی میرے ساتھ ہی مر جانا

میں پیمبر ترا نہیں لیکن

مجھ سے بھی بات کر خدا میرے

میرے پاس سے اٹھ کر وہ اس کا جانا

ساری کیفیت ہے گزرتے موسم سی

میں لاکھ اسے تازہ رکھوں دل کے لہو سے

لیکن تری تصویر خیالی ہی رہے گی

کچھ دور تک تو چمکی تھی میرے لہو کی دھار

پھر رات اپنے ساتھ بہا لے گئی مجھے

تلاش ایک بہانہ تھا خاک اڑانے کا

پتہ چلا کہ ہمیں جستجوئے یار نہ تھی

چھیڑ کر جیسے گزر جاتی ہے دوشیزہ ہوا

دیر سے خاموش ہے گہرا سمندر اور میں

میں تو چاک پہ کوزہ گر کے ہاتھ کی مٹی ہوں

اب یہ مٹی دیکھ کھلونا کیسے بنتی ہے

ایک کرن بس روشنیوں میں شریک نہیں ہوتی

دل کے بجھنے سے دنیا تاریک نہیں ہوتی

یہ ڈوبتی ہوئی کیا شے ہے تیری آنکھوں میں

ترے لبوں پہ جو روشن ہے اس کا نام ہے کیا

کھلی چھتوں سے چاندنی راتیں کترا جائیں گی

کچھ ہم بھی تنہائی کے عادی ہو جائیں گے

الٹ رہی تھیں ہوائیں ورق ورق اس کا

لکھی گئی تھی جو مٹی پہ وہ کتاب تھا وہ

اندر اندر کھوکھلے ہو جاتے ہیں گھر

جب دیواروں میں پانی بھر جاتا ہے

نہ جانے کیا ہے کہ جب بھی میں اس کو دیکھتا ہوں

تو کوئی اور مرے رو بہ رو نکلتا ہے

دھو کے تو میرا لہو اپنے ہنر کو نہ چھپا

کہ یہ سرخی تری شمشیر کا جوہر ہی تو ہے

چمک رہا ہے خیمۂ روشن دور ستارے سا

دل کی کشتی تیر رہی ہے کھلے سمندر میں

بے حسی پر مری وہ خوش تھا کہ پتھر ہی تو ہے

میں بھی چپ تھا کہ چلو سینے میں خنجر ہی تو ہے

دیکھ کبھی آ کر یہ لا محدود فضا

تو بھی میری تنہائی میں شامل ہو

ایک جھونکا ہوا کا آیا زیبؔ

اور پھر میں غبار بھی نہ رہا

مجھ سے بچھڑ کر ہوگا سمندر بھی بے چین

رات ڈھلے تو کرتا ہوگا شور بہت

ٹوٹتی رہتی ہے کچے دھاگے سی نیند

آنکھوں کو ٹھنڈک خوابوں کو گرانی دے

اب تک تو کسی غیر کا احساں نہیں مجھ پر

قاتل بھی کوئی چاہنے والی ہی رہے گی

اس کی راہوں میں پڑا میں بھی ہوں کب سے لیکن

بھول جاتا ہوں اسے یاد دلانے کے لیے

ڈھونڈھتی پھرتی ہیں جانے مری نظریں کس کو

ایسی بستی میں جہاں کوئی بھی آباد نہیں

سورج نے اک نظر مرے زخموں پہ ڈال کے

دیکھا ہے مجھ کو کھڑکی سے پھر سر نکال کے

زیبؔ مجھے ڈر لگنے لگا ہے اپنے خوابوں سے

جاگتے جاگتے درد رہا کرتا ہے مرے سر میں

اب مجھ سے یہ دنیا مرا سر مانگ رہی ہے

کمبخت مرے آگے سوالی ہی رہے گی

وہ میرے سامنے خنجر بکف کھڑا تھا زیبؔ

میں دیکھتا رہا اس کو کہ بے نقاب تھا وہ

شعر تو مجھ سے تیری آنکھیں کہلا لیتی ہیں

چپ رہتا ہوں میں جب تک تحریک نہیں ہوتی

کہیں پتہ نہ لگا پھر وجود کا میرے

اٹھا کے لے گئی دنیا شکار کس کا تھا

کس نے صحرا میں مرے واسطے رکھی ہے یہ چھاؤں

دھوپ روکے ہے مرا چاہنے والا کیسا

تھک گیا ایک کہانی سنتے سنتے میں

کیا اس کا انجام نہیں ہوتا کوئی

اڑا کے خاک بہت میں نے دیکھ لی اے زیبؔ

وہاں تلک تو کوئی راستہ نہیں جاتا

اور بھی گہری ہو جاتی ہے اس کی سرگوشی

مجھ سے کسی کی آنکھوں کی جب باتیں کرتا ہے

جگمگاتا ہوا خنجر مرے سینے میں اتار

روشنی لے کے کبھی خانۂ ویران میں آ

میں نے دیکھا تھا سہارے کے لیے چاروں طرف

کہ مرے پاس ہی اک ہاتھ بھنور سے نکلا

شاید اب بھی کوئی شرر باقی ہو زیبؔ

دل کی راکھ سے آنچ آتی ہے کم کم سی

لہو میں تیرتا پھرتا ہے میرا خستہ بدن

میں ڈوب جاؤں تو زخموں کو دیکھے بھالے کون

تیرے سامنے آتے ہوئے گھبراتا ہوں

لب پہ ترا اقرار ہے دل میں چور بہت

کم روشن اک خواب آئینہ اک پیلا مرجھایا پھول

پس منظر کے سناٹے میں ایک ندی پتھریلی سی

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے