دیدار پر شاعری
ہمارا یہ انتخاب عاشق کی معشوق کے دیدار کی خواہش کا بیان ہے ۔ یہ خواہش جس گہری بے چینی کو جنم دیتی ہے اس سے ہم سب گزرے بھی ہیں لیکن اس تجربے کو ایک بڑی سطح پر جاننے اور محسوس کرنے کیلئے اس شعری متن سے گزرنا ضروری ہے ۔
دیکھنے کے لیے سارا عالم بھی کم
چاہنے کے لیے ایک چہرا بہت
-
موضوعات : عشقاور 1 مزید
کچھ نظر آتا نہیں اس کے تصور کے سوا
حسرت دیدار نے آنکھوں کو اندھا کر دیا
save visions of her, nothing comes to mind
the longing for her sight surely turned me blind
اب وہی کرنے لگے دیدار سے آگے کی بات
جو کبھی کہتے تھے بس دیدار ہونا چاہئے
میری آنکھیں اور دیدار آپ کا
یا قیامت آ گئی یا خواب ہے
دیکھا نہیں وہ چاند سا چہرا کئی دن سے
تاریک نظر آتی ہے دنیا کئی دن سے
تو سامنے ہے تو پھر کیوں یقیں نہیں آتا
یہ بار بار جو آنکھوں کو مل کے دیکھتے ہیں
ہٹاؤ آئنہ امیدوار ہم بھی ہیں
تمہارے دیکھنے والوں میں یار ہم بھی ہیں
ظاہر کی آنکھ سے نہ تماشا کرے کوئی
ہو دیکھنا تو دیدۂ دل وا کرے کوئی
-
موضوعات : تصوفاور 1 مزید
کیوں جل گیا نہ تاب رخ یار دیکھ کر
جلتا ہوں اپنی طاقت دیدار دیکھ کر
why didn't I turn to ashes seeing her face so glowing, bright
by envy now I am inflamed, at strength of my own sight
-
موضوعات : حسناور 1 مزید
سنا ہے حشر میں ہر آنکھ اسے بے پردہ دیکھے گی
مجھے ڈر ہے نہ توہین جمال یار ہو جائے
-
موضوع : نظارہ
تم اپنے چاند تارے کہکشاں چاہے جسے دینا
مری آنکھوں پہ اپنی دید کی اک شام لکھ دینا
کہتے ہیں عید ہے آج اپنی بھی عید ہوتی
ہم کو اگر میسر جاناں کی دید ہوتی
-
موضوع : عید
وہ دشمنی سے دیکھتے ہیں دیکھتے تو ہیں
میں شاد ہوں کہ ہوں تو کسی کی نگاہ میں
اب اور دیر نہ کر حشر برپا کرنے میں
مری نظر ترے دیدار کو ترستی ہے
نہ وہ صورت دکھاتے ہیں نہ ملتے ہیں گلے آ کر
نہ آنکھیں شاد ہوتیں ہیں نہ دل مسرور ہوتا ہے
دیدار کی طلب کے طریقوں سے بے خبر
دیدار کی طلب ہے تو پہلے نگاہ مانگ
ignorant of mores when seeking visions bright
if you want the vision, you first need the sight
جو اور کچھ ہو تری دید کے سوا منظور
تو مجھ پہ خواہش جنت حرام ہو جائے
ترا دیدار ہو حسرت بہت ہے
چلو کہ نیند بھی آنے لگی ہے
مرا جی تو آنکھوں میں آیا یہ سنتے
کہ دیدار بھی ایک دن عام ہوگا
حاصل اس مہ لقا کی دید نہیں
عید ہے اور ہم کو عید نہیں
-
موضوع : عید
اس کو دیکھا تو یہ محسوس ہوا
ہم بہت دور تھے خود سے پہلے
کاسۂ چشم لے کے جوں نرگس
ہم نے دیدار کی گدائی کی
اس قمر کو کبھی تو دیکھیں گے
تیس دن ہوتے ہیں مہینے کے
جیسے جیسے در دل دار قریب آتا ہے
دل یہ کہتا ہے کہ پہنچوں میں نظر سے پہلے
آنکھ اٹھا کر اسے دیکھوں ہوں تو نظروں میں مجھے
یوں جتاتا ہے کہ کیا تجھ کو نہیں ڈر میرا
آئینہ کبھی قابل دیدار نہ ہووے
گر خاک کے ساتھ اس کو سروکار نہ ہووے
-
موضوع : آئینہ
اٹھ اے نقاب یار کہ بیٹھے ہیں دیر سے
کتنے غریب دیدۂ پر نم لیے ہوئے
-
موضوع : نقاب
دردؔ کے ملنے سے اے یار برا کیوں مانا
اس کو کچھ اور سوا دید کے منظور نہ تھا
الٰہی کیا کھلے دیدار کی راہ
ادھر دروازے بند آنکھیں ادھر بند
آفریں تجھ کو حسرت دیدار
چشم تر سے زباں کا کام لیا
دیکھنا حسرت دیدار اسے کہتے ہیں
پھر گیا منہ تری جانب دم مردن اپنا
تری پہلی دید کے ساتھ ہی وہ فسوں بھی تھا
تجھے دیکھ کر تجھے دیکھنا مجھے آ گیا
ٹوٹیں وہ سر جس میں تیری زلف کا سودا نہیں
پھوٹیں وہ آنکھیں کہ جن کو دید کا لپکا نہیں
میں کامیاب دید بھی محروم دید بھی
جلووں کے اژدحام نے حیراں بنا دیا