خفگی پر شاعری
خفا ہونا اور ایک دوسرے سے ناراض ہونا زندگی میں ایک عام سا عمل ہے لیکن شاعری میں خفگی کی جتنی صورتیں ہیں وہ عاشق اور معشوق کے درمیان کی ہیں ۔ شاعری میں خفا ہونے ، ناراض ہونے اور پھر راضی ہوجانے کا جو ایک دلچسپ کھیل ہے اس کی چند تصویریں ہم اس انتخاب میں آپ کے سامنے پیش کر رہے ہیں ۔
کس کس کو بتائیں گے جدائی کا سبب ہم
تو مجھ سے خفا ہے تو زمانے کے لیے آ
-
موضوعات : جدائیاور 4 مزید
لوگ کہتے ہیں کہ تو اب بھی خفا ہے مجھ سے
تیری آنکھوں نے تو کچھ اور کہا ہے مجھ سے
-
موضوعات : آنکھاور 3 مزید
یا وہ تھے خفا ہم سے یا ہم ہیں خفا ان سے
کل ان کا زمانہ تھا آج اپنا زمانا ہے
-
موضوع : وقت
اتنا تو بتا جاؤ خفا ہونے سے پہلے
وہ کیا کریں جو تم سے خفا ہو نہیں سکتے
یہی حالات ابتدا سے رہے
لوگ ہم سے خفا خفا سے رہے
مجھ سے بگڑ گئے تو رقیبوں کی بن گئی
غیروں میں بٹ رہا ہے مرا اعتبار آج
حسن یوں عشق سے ناراض ہے اب
پھول خوشبو سے خفا ہو جیسے
-
موضوعات : حسناور 1 مزید
خفا ہیں پھر بھی آ کر چھیڑ جاتے ہیں تصور میں
ہمارے حال پر کچھ مہربانی اب بھی ہوتی ہے
-
موضوع : تصور
عشق میں تہذیب کے ہیں اور ہی کچھ فلسفے
تجھ سے ہو کر ہم خفا خود سے خفا رہنے لگے
یہ جو راتوں کو مجھے خواب نہیں آتے عطاؔ
اس کا مطلب ہے مرا یار خفا ہے مجھ سے
کسی معشوق کا عاشق سے خفا ہو جانا
روح کا جسم سے گویا ہے جدا ہو جانا
وہ خوش ہو کے مجھ سے خفا ہو گیا
مجھے کیا امیدیں تھیں کیا ہو گیا
چھیڑ مت ہر دم نہ آئینہ دکھا
اپنی صورت سے خفا بیٹھے ہیں ہم
اک تیری بے رخی سے زمانہ خفا ہوا
اے سنگ دل تجھے بھی خبر ہے کہ کیا ہوا
تجھ سے برہم ہوں کبھی خود سے خفا
کچھ عجب رفتار ہے تیرے بغیر
-
موضوع : برہم
میں اپنے آپ سے ہر دم خفا رہتا ہوں یوں آزرؔ
پرانی دشمنی ہو جس طرح دو خاندانوں میں
جس کی ہوس کے واسطے دنیا ہوئی عزیز
واپس ہوئے تو اس کی محبت خفا ملی
-
موضوعات : دنیااور 2 مزید
لائی ہے کہاں مجھ کو طبیعت کی دو رنگی
دنیا کا طلب گار بھی دنیا سے خفا بھی
-
موضوع : دنیا
میری بیتابیوں سے گھبرا کر
کوئی مجھ سے خفا نہ ہو جائے
یا خفا ہوتے تھے ہم تو منتیں کرتے تھے آپ
یا خفا ہیں ہم سے وہ اور ہم منا سکتے نہیں
خدا سے لوگ بھی خائف کبھی تھے
مگر لوگوں سے اب خائف خدا ہے
-
موضوع : خدا
خفا دیکھا ہے اس کو خواب میں دل سخت مضطر ہے
کھلا دے دیکھیے کیا کیا گل تعبیر خواب اپنا
-
موضوعات : خواباور 1 مزید
جانے کیوں ان سے ملتے رہتے ہیں
خوش وہ کیا ہوں گے جب خفا ہی نہیں
چھیڑا ہے دست شوق نے مجھ سے خفا ہیں وہ
گویا کہ اپنے دل پہ مجھے اختیار ہے
مل بھی جاؤ یوں ہی تم بہر خدا آپ سے آپ
جس طرح ہو گئے ہو ہم سے خفا آپ سے آپ