Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Zeb Ghauri's Photo'

زیب غوری

1928 - 1985 | کانپور, انڈیا

ہندوستان کے ممتاز ترین جدید شاعروں میں نمایاں

ہندوستان کے ممتاز ترین جدید شاعروں میں نمایاں

زیب غوری کے اشعار

24.3K
Favorite

باعتبار

ایک جھونکا ہوا کا آیا زیبؔ

اور پھر میں غبار بھی نہ رہا

دھند ہے اور سرمئی کہسار کی چوٹی ہے زیبؔ

زرد شہ پر دھوپ اڑنے کے لئے تیار ہے

طوفاں میں ناؤ آئی تو کیا سمت کیا نشاں

کچھ دیر میں رہا نہ ہوا کا شمار بھی

خاکستر جاں کو مری مہکائے تھا لیکن

جوہی کا وہ پودھا مرے آنگن میں نہیں تھا

زیبؔ مجھے ڈر لگنے لگا ہے اپنے خوابوں سے

جاگتے جاگتے درد رہا کرتا ہے مرے سر میں

چمک رہا ہے خیمۂ روشن دور ستارے سا

دل کی کشتی تیر رہی ہے کھلے سمندر میں

کم روشن اک خواب آئینہ اک پیلا مرجھایا پھول

پس منظر کے سناٹے میں ایک ندی پتھریلی سی

پھر ایک نقش کا نیرنگ زیبؔ بکھرے گا

مرے غبار کو پھر اس نے پیچ و تاب دیا

میں تشنہ تھا مجھے سر چشمۂ سراب دیا

تھکے بدن کو مرے پتھروں میں داب دیا

عجب کرشمہ دکھایا بہ یک قلم اس نے

ہوا چلائی سمندر کو نقش آب دیا

اس کی راہوں میں پڑا میں بھی ہوں کب سے لیکن

بھول جاتا ہوں اسے یاد دلانے کے لیے

کہیں پتہ نہ لگا پھر وجود کا میرے

اٹھا کے لے گئی دنیا شکار کس کا تھا

گہر لگے تھے خنک انگلیوں کے زخم مجھے

اب اس اتھاہ سمندر کو پھر کھنگالے کون

لہو میں تیرتا پھرتا ہے میرا خستہ بدن

میں ڈوب جاؤں تو زخموں کو دیکھے بھالے کون

دل ہے کہ تری یاد سے خالی نہیں رہتا

شاید ہی کبھی میں نے تجھے یاد کیا ہو

زخم لگا کر اس کا بھی کچھ ہاتھ کھلا

میں بھی دھوکا کھا کر کچھ چالاک ہوا

مہکتی زلفوں سے خوشے گلوں کے چھوٹ گرے

کچھ اور جیسے کہ گنجائش بہار نہ تھی

تلاش ایک بہانہ تھا خاک اڑانے کا

پتہ چلا کہ ہمیں جستجوئے یار نہ تھی

کھلی چھتوں سے چاندنی راتیں کترا جائیں گی

کچھ ہم بھی تنہائی کے عادی ہو جائیں گے

سورج نے اک نظر مرے زخموں پہ ڈال کے

دیکھا ہے مجھ کو کھڑکی سے پھر سر نکال کے

اڑا کے خاک بہت میں نے دیکھ لی اے زیبؔ

وہاں تلک تو کوئی راستہ نہیں جاتا

یہ کم ہے کیا کہ مرے پاس بیٹھا رہتا ہے

وہ جب تلک مرے دل کو دکھا نہیں جاتا

بڑے عذاب میں ہوں مجھ کو جان بھی ہے عزیز

ستم کو دیکھ کے چپ بھی رہا نہیں جاتا

چھیڑ کر جیسے گزر جاتی ہے دوشیزہ ہوا

دیر سے خاموش ہے گہرا سمندر اور میں

گھسیٹتے ہوئے خود کو پھرو گے زیبؔ کہاں

چلو کہ خاک کو دے آئیں یہ بدن اس کا

نہ جانے کیا ہے کہ جب بھی میں اس کو دیکھتا ہوں

تو کوئی اور مرے رو بہ رو نکلتا ہے

میں پیمبر ترا نہیں لیکن

مجھ سے بھی بات کر خدا میرے

میں نے بیتابانہ بڑھ کر دشت میں آواز دی

جب غبار اٹھا کسی دیوانے کا دھوکا ہوا

زیبؔ سوال اب یہ ہے تجھے پہچانے کون

کس کی نظر اس گہرائی کی حامل ہو

دیکھ کبھی آ کر یہ لا محدود فضا

تو بھی میری تنہائی میں شامل ہو

اندر اندر کھوکھلے ہو جاتے ہیں گھر

جب دیواروں میں پانی بھر جاتا ہے

کوئی خبر ہی نہ تھی مرگ جستجو کی مجھے

زمیں پھلانگ گیا اپنے شوق بے حد میں

میں تو چاک پہ کوزہ گر کے ہاتھ کی مٹی ہوں

اب یہ مٹی دیکھ کھلونا کیسے بنتی ہے

اب مجھ سے یہ دنیا مرا سر مانگ رہی ہے

کمبخت مرے آگے سوالی ہی رہے گی

اب تک تو کسی غیر کا احساں نہیں مجھ پر

قاتل بھی کوئی چاہنے والی ہی رہے گی

میں لاکھ اسے تازہ رکھوں دل کے لہو سے

لیکن تری تصویر خیالی ہی رہے گی

کس نے صحرا میں مرے واسطے رکھی ہے یہ چھاؤں

دھوپ روکے ہے مرا چاہنے والا کیسا

میں نے دیکھا تھا سہارے کے لیے چاروں طرف

کہ مرے پاس ہی اک ہاتھ بھنور سے نکلا

سنگ بے حس سے اٹھی موج سیہ تاب کوئی

سرسراتا ہوا اک سانپ کھنڈر سے نکلا

کچھ دور تک تو چمکی تھی میرے لہو کی دھار

پھر رات اپنے ساتھ بہا لے گئی مجھے

جگمگاتا ہوا خنجر مرے سینے میں اتار

روشنی لے کے کبھی خانۂ ویران میں آ

ٹوٹتی رہتی ہے کچے دھاگے سی نیند

آنکھوں کو ٹھنڈک خوابوں کو گرانی دے

ڈھونڈھتی پھرتی ہیں جانے مری نظریں کس کو

ایسی بستی میں جہاں کوئی بھی آباد نہیں

بے حسی پر مری وہ خوش تھا کہ پتھر ہی تو ہے

میں بھی چپ تھا کہ چلو سینے میں خنجر ہی تو ہے

دھو کے تو میرا لہو اپنے ہنر کو نہ چھپا

کہ یہ سرخی تری شمشیر کا جوہر ہی تو ہے

تیرے سامنے آتے ہوئے گھبراتا ہوں

لب پہ ترا اقرار ہے دل میں چور بہت

مجھ سے بچھڑ کر ہوگا سمندر بھی بے چین

رات ڈھلے تو کرتا ہوگا شور بہت

آگے چل کے تو کڑے کوس ہیں تنہائی کے

اور کچھ دور تلک لطف سفر ہے یہ بھی

دل کو سنبھالے ہنستا بولتا رہتا ہوں لیکن

سچ پوچھو تو زیبؔ طبیعت ٹھیک نہیں ہوتی

شعر تو مجھ سے تیری آنکھیں کہلا لیتی ہیں

چپ رہتا ہوں میں جب تک تحریک نہیں ہوتی

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے