Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Ahmad Nadeem Qasmi's Photo'

احمد ندیم قاسمی

1916 - 2006 | لاہور, پاکستان

پاکستان کے ممتاز ترین ترقی پسند شاعر، اہم افسانہ نگاروں میں بھی ممتاز، اپنے رسالے ’فنون‘ کے لئے مشہور، سعادت حسن منٹو کے ہم عصر

پاکستان کے ممتاز ترین ترقی پسند شاعر، اہم افسانہ نگاروں میں بھی ممتاز، اپنے رسالے ’فنون‘ کے لئے مشہور، سعادت حسن منٹو کے ہم عصر

احمد ندیم قاسمی کے اشعار

31.1K
Favorite

باعتبار

اک سفینہ ہے تری یاد اگر

اک سمندر ہے مری تنہائی

تجھ سے کس طرح میں اظہار تمنا کرتا

لفظ سوجھا تو معانی نے بغاوت کر دی

مرے خدا نے کیا تھا مجھے اسیر بہشت

مرے گنہ نے رہائی مجھے دلائی ہے

صبح ہوتے ہی نکل آتے ہیں بازار میں لوگ

گٹھریاں سر پہ اٹھائے ہوئے ایمانوں کی

جکڑی ہوئی ہے ان میں مری ساری کائنات

گو دیکھنے میں نرم ہے تیری کلائیاں

مجھ سے کافر کو ترے عشق نے یوں شرمایا

دل تجھے دیکھ کے دھڑکا تو خدا یاد آیا

یکساں ہیں فراق وصل دونوں

یہ مرحلے ایک سے کڑے ہیں

لوگ کہتے ہیں کہ سایا ترے پیکر کا نہیں

میں تو کہتا ہوں زمانے پہ ہے سایا تیرا

زندگی شمع کی مانند جلاتا ہوں ندیمؔ

بجھ تو جاؤں گا مگر صبح تو کر جاؤں گا

مر جاتا ہوں جب یہ سوچتا ہوں

میں تیرے بغیر جی رہا ہوں

غم جاناں غم دوراں کی طرف یوں آیا

جانب شہر چلے دختر دہقاں جیسے

فریب کھانے کو پیشہ بنا لیا ہم نے

جب ایک بار وفا کا فریب کھا بیٹھے

کس دل سے کروں وداع تجھ کو

ٹوٹا جو ستارہ بجھ گیا ہے

عجب تضاد میں کاٹا ہے زندگی کا سفر

لبوں پہ پیاس تھی بادل تھے سر پہ چھائے ہوئے

جنت ملی جھوٹوں کو اگر جھوٹ کے بدلے

سچوں کو سزا میں ہے جہنم بھی گوارا

پا کر بھی تو نیند اڑ گئی تھی

کھو کر بھی تو رت جگے ملے ہیں

ان کا آنا حشر سے کچھ کم نہ تھا

اور جب پلٹے قیامت ڈھا گئے

کس توقع پہ کسی کو دیکھیں

کوئی تم سے بھی حسیں کیا ہوگا

جس بھی فن کار کا شہکار ہو تم

اس نے صدیوں تمہیں سوچا ہوگا

آج کی رات بھی تنہا ہی کٹی

آج کے دن بھی اندھیرا ہوگا

ساری دنیا ہمیں پہچانتی ہے

کوئی ہم سا بھی نہ تنہا ہوگا

خدا کرے کہ تری عمر میں گنے جائیں

وہ دن جو ہم نے ترے ہجر میں گزارے تھے

تو نے یوں دیکھا ہے جیسے کبھی دیکھا ہی نہ تھا

میں تو دل میں ترے قدموں کے نشاں تک دیکھوں

دل گیا تھا تو یہ آنکھیں بھی کوئی لے جاتا

میں فقط ایک ہی تصویر کہاں تک دیکھوں

انداز ہو بہ ہو تری آواز پا کا تھا

دیکھا نکل کے گھر سے تو جھونکا ہوا کا تھا

کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مر جاؤں گا

میں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جاؤں گا

میں نے سمجھا تھا کہ لوٹ آتے ہیں جانے والے

تو نے جا کر تو جدائی مری قسمت کر دی

مجھ کو دشمن کے ارادوں پہ بھی پیار آتا ہے

تری الفت نے محبت مری عادت کر دی

شام کو صبح چمن یاد آئی

کس کی خوشبوئے بدن یاد آئی

مجھے منظور گر ترک تعلق ہے رضا تیری

مگر ٹوٹے گا رشتہ درد کا آہستہ آہستہ

مرا وجود مری روح کو پکارتا ہے

تری طرف بھی چلوں تو ٹھہر ٹھہر جاؤں

خود کو تو ندیمؔ آزمایا

اب مر کے خدا کو آزماؤں

عمر بھر سنگ زنی کرتے رہے اہل وطن

یہ الگ بات کہ دفنائیں گے اعزاز کے ساتھ

تم مرے ارادوں کے ڈولتے ستاروں کو

یاس کے خلاؤں میں راستہ دکھاتے ہو

میں تیرے کہے سے چپ ہوں لیکن

چپ بھی تو بیان مدعا ہے

ہر لمحہ اگر گریز پا ہے

تو کیوں مرے دل میں بس گیا ہے

اس وقت کا حساب کیا دوں

جو تیرے بغیر کٹ گیا ہے

اک عمر کے بعد مسکرا کر

تو نے تو مجھے رلا دیا ہے

کچھ کھیل نہیں ہے عشق کرنا

یہ زندگی بھر کا رت جگا ہے

بھری دنیا میں فقط مجھ سے نگاہیں نہ چرا

عشق پر بس نہ چلے گا تری دانائی کا

اتنا مانوس ہوں سناٹے سے

کوئی بولے تو برا لگتا ہے

میں کشتی میں اکیلا تو نہیں ہوں

مرے ہم راہ دریا جا رہا ہے

مسافر ہی مسافر ہر طرف ہیں

مگر ہر شخص تنہا جا رہا ہے

آخر دعا کریں بھی تو کس مدعا کے ساتھ

کیسے زمیں کی بات کہیں آسماں سے ہم

آغوش میں مہکوگے دکھائی نہیں دو گے

تم نکہت گلزار ہو ہم پردۂ شب ہیں

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے