تمام
تعارف
غزل233
شعر392
ای-کتاب1005
ٹاپ ٢٠ شاعری 20
تصویری شاعری 45
آڈیو 82
ویڈیو 293
مرثیہ1
قطعہ28
رباعی34
قصہ18
بلاگ12
دیگر
سہرا3
غیر متداول غزلیں238
قادر نامہ1
قصیدہ10
سلام1
مخمس1
مثنوی3
غیرمتداول اشعار59
مرزا غالب کی ٹاپ ٢٠ شاعری
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
-
موضوع : ضرب المثل
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
-
موضوع : ترغیبی
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
-
موضوع : تعلی
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
نہ تھا کچھ تو خدا تھا کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا
ڈبویا مجھ کو ہونے نے نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا
تشریح
یہ شعر غالب کے مشہور اشعار میں سے ایک ہے۔ اس میں جس قدر سادہ الفاظ آسان استعمال ہوئے ہیں اسی قدر خیال میں سنجیدگی پائی جاتی ہے۔ عام قاری یہی مفہوم نکال سکتا ہے کہ جب کچھ موجود نہیں تھا تو خدا کی ذات موجود تھی۔ اگر کائنات میں کچھ بھی نہ ہوتا تو پھر بھی خدا کی ذات ہی موجود رہتی۔ یعنی خدا کی ذات کسی ظاہری شے کے وجود کی محتاج نہیں بلکہ ہر شے اس کی ذات کی محتاج ہے۔ دوسرے مصرع میں یہ بیان ہوا ہے کہ مجھ کو اپنے ہونے یعنی اپنی ذات سے نقصان پہنچا اگر میں نہیں ہوتا تو نہ جانے میرے وجود کی نوعیت کیا ہوتی۔
مگر اس شعر کے اصلی معنوں کے سمجھنے کے لئے تصوف کے دو بڑے نظریوں کو سمجھنا ضروری ہے۔ ایک نظریے کو ہمہ اوست کہتے اور دوسرے کو ہمہ ازاوست۔ ہمہ اوست کے معنی سب کچھ خدا ہے۔ صوفیوں کا قول ہے کہ خدا کے سوا کسی شے کا وجود نہیں۔ یہ خدا ہی ہے جو مختلف شکلوں میں جلوہ گر ہے۔ ہمہ از اوست کے معنی یہ ہیں کہ تمام چیزیں خدا سے نہیں۔ مطلب یہ کہ کوئی چیز بذات خود موجود نہیں بلکہ ہر چیز اپنی ہستی کے لئے اللہ تعالیٰ کی محتاج ہے۔
ہمہ اوست فرقے سے تعلق رکھنے والے صوفیا کا کہنا ہے کہ چونکہ خدا خود فرماتا ہے کہ میں زمین اور آسمانوں کا نور ہوں لہٰذا ہر شے اس نور کا ایک حصہ ہے۔
اسی نظریے سے متاثرہوکر غالب نے یہ خیال باندھا ہے۔ شعر کی تشریح سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ خدا کی ذات سب سے قدیم ذات ہے۔ یعنی جب دنیا میں کچھ نہیں تھا تب بھی خدا کی ذات موجود تھی اور خدا کی ذات ہمیشہ رہنے والی ہے۔ یعنی جب کچھ بھی نہ ہوگا تب خدا کی ذات موجود رہے گی۔ یہاں مقصد قیامت سے ہے جب اللہ کے حکم سے سب مخلوقات ختم ہو جائیں گی اور اللہ تعالیٰ یکہ و تنہا موجود رہے گا۔
اسی حقیقت کے تناظر میں غالب کہتے ہیں کہ چونکہ اللہ کی ذات قدیم ہے اس لئے جب اس کائنات میں کچھ موجود نہیں تھا تو اس کی ذات موجود تھی اور جب کوئی ہستی موجود نہ رہے گی تب بھی اللہ کی ہی ذات موجود رہے گی اور چونکہ میں اللہ تعالیٰ کے نور کا یعنی ایک جزو ہوں اور مجھے میرے پیداہونے نےاس کامل نور سے جدا کیا اس لئے میری ہستی میرے لئے نقصان کا باعث ہے۔ یعنی میرے ہونے مجھے ڈبویا کہ میں کل سے جزو بن گیا۔ اگر میں نہیں ہوتا تو کیا ہوگا یعنی کامل نور ہوتا۔
شفق سوپوری
تشریح
یہ شعر غالب کے مشہور اشعار میں سے ایک ہے۔ اس میں جس قدر سادہ الفاظ آسان استعمال ہوئے ہیں اسی قدر خیال میں سنجیدگی پائی جاتی ہے۔ عام قاری یہی مفہوم نکال سکتا ہے کہ جب کچھ موجود نہیں تھا تو خدا کی ذات موجود تھی۔ اگر کائنات میں کچھ بھی نہ ہوتا تو پھر بھی خدا کی ذات ہی موجود رہتی۔ یعنی خدا کی ذات کسی ظاہری شے کے وجود کی محتاج نہیں بلکہ ہر شے اس کی ذات کی محتاج ہے۔ دوسرے مصرع میں یہ بیان ہوا ہے کہ مجھ کو اپنے ہونے یعنی اپنی ذات سے نقصان پہنچا اگر میں نہیں ہوتا تو نہ جانے میرے وجود کی نوعیت کیا ہوتی۔
مگر اس شعر کے اصلی معنوں کے سمجھنے کے لئے تصوف کے دو بڑے نظریوں کو سمجھنا ضروری ہے۔ ایک نظریے کو ہمہ اوست کہتے اور دوسرے کو ہمہ ازاوست۔ ہمہ اوست کے معنی سب کچھ خدا ہے۔ صوفیوں کا قول ہے کہ خدا کے سوا کسی شے کا وجود نہیں۔ یہ خدا ہی ہے جو مختلف شکلوں میں جلوہ گر ہے۔ ہمہ از اوست کے معنی یہ ہیں کہ تمام چیزیں خدا سے نہیں۔ مطلب یہ کہ کوئی چیز بذات خود موجود نہیں بلکہ ہر چیز اپنی ہستی کے لئے اللہ تعالیٰ کی محتاج ہے۔
ہمہ اوست فرقے سے تعلق رکھنے والے صوفیا کا کہنا ہے کہ چونکہ خدا خود فرماتا ہے کہ میں زمین اور آسمانوں کا نور ہوں لہٰذا ہر شے اس نور کا ایک حصہ ہے۔
اسی نظریے سے متاثرہوکر غالب نے یہ خیال باندھا ہے۔ شعر کی تشریح سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ خدا کی ذات سب سے قدیم ذات ہے۔ یعنی جب دنیا میں کچھ نہیں تھا تب بھی خدا کی ذات موجود تھی اور خدا کی ذات ہمیشہ رہنے والی ہے۔ یعنی جب کچھ بھی نہ ہوگا تب خدا کی ذات موجود رہے گی۔ یہاں مقصد قیامت سے ہے جب اللہ کے حکم سے سب مخلوقات ختم ہو جائیں گی اور اللہ تعالیٰ یکہ و تنہا موجود رہے گا۔
اسی حقیقت کے تناظر میں غالب کہتے ہیں کہ چونکہ اللہ کی ذات قدیم ہے اس لئے جب اس کائنات میں کچھ موجود نہیں تھا تو اس کی ذات موجود تھی اور جب کوئی ہستی موجود نہ رہے گی تب بھی اللہ کی ہی ذات موجود رہے گی اور چونکہ میں اللہ تعالیٰ کے نور کا یعنی ایک جزو ہوں اور مجھے میرے پیداہونے نےاس کامل نور سے جدا کیا اس لئے میری ہستی میرے لئے نقصان کا باعث ہے۔ یعنی میرے ہونے مجھے ڈبویا کہ میں کل سے جزو بن گیا۔ اگر میں نہیں ہوتا تو کیا ہوگا یعنی کامل نور ہوتا۔
شفق سوپوری
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
کوئی میرے دل سے پوچھے ترے تیر نیم کش کو
یہ خلش کہاں سے ہوتی جو جگر کے پار ہوتا
تشریح
یہ شعر غالب کی ان چند مشہور غزلوں میں سے ایک کا ہے جو زبان زد خاص وعام ہیں ۔ اگر کہا جائے تو یہ کہہ کر بات ختم کی جاسکتی ہے کہ یہ محاکات کا شعر ہے مگر اتنے سے حق ادا نہیں ہوگا ۔ نہ جانے کیوں غالب کے اس شعر میں دو محاکات ایک ساتھ جمع دکھائی دیتے ہیں ۔ شاید یہ گمان بھی غالب کی فنکاری سے پیدا ہؤا ہے ۔ "تیر نیم کش" کی ترکیب محض صوتی آہنگ کی صورت میں حسین نہیں ہے بلکہ معنوی سطح پر بھی بہت دلچسپ پہلو رکھتی ہے۔
دیکھا جائے تو بنیادی طور پر "تیر نیم کش" کے معنی "ادھ کھنچا تیر" ہے ۔ یہ تو لفظی معنی ہوا لیکن اگر یہی مجازی ہو تو "محبوب کی ادھ کھلی آنکھوں والی نظر یا آنکھ مارنا یا نظربچانا ، آنکھ دبانا وغیرہ یہ سب معنی ہوسکتے ہیں ۔ دونوں صورتوں میں اس شعر کے ایک سے زائد معنی اور پہلو نکلیں گے ۔ حقیقی معنی میں مفہوم یوں ہوگا کہ کوئی میرے دل سے پوچھے تمہاری آدھی کھینچ کے چلائی گئی تیر کو، یہ جو چبھن ہے اسی لیے ہے ، اگر کہیں پوری کھینچ کے چلائی گئی ہوتی تو ریت پر پانی کی طرح گزر جاتی خلش کا سوال ہی نہیں ہوتا ۔ مجازی معنی میں کہہ سکتے ہیں کہ کوئی میرے دل سے پوچھے کہ تمہاری نین کے باڑ سے یہ چبھن کہاں سے ہوتی اگر ایک خاص انداز سے نظر نہیں چلائی جاتی۔
یہ بظاہر دو معنی ہیں مگر دراصل دوسرا پہلے ہی معنی کا پرتو ہے ۔ فنکاری یہ ہے کہ یہ واضح نہیں ہے کہ "تیر نیم کش" وہ ہے جو سینے میں پیوست ہوا ہے یا وہ ہے جو پیوست سینے سے نکالا جا رہا ہے ۔ اگر شدت چبھن کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو "تیر نیم کش" وہ ہونا ہوناچاہیے جو پیوست سینے سے نکالا جا رہا ہے کیونکہ پیوست ہونے سے زیادہ خلش اسے نکالنے میں ہے ۔ اگر ایک بار کو مان لیا جائے کہ تیر نیم کش وہ ہے جو سینے میں پیوست ہو رہا ہے تو یہ معنی کے طور بہ ایں وجہ کمزور ہوگا کیونکہ اس میں خلش کی شدّت بہ نسبت دوسرے معنی کے کمزور ہے اؤر یہ کسی بھی عاشق کے لیے اچھا نہیں کہ محبوب ستم ایجاد کے کم ایذا پر اکتفا کرے، ایسی صورت میں عاشق کے قد پر سوالیہ نشان لگ جائے گا ، یوں بھی کم از کم غالب کا عاشق اتنا چھوٹا نہیں ہوسکتا ۔ بہر کیف معنی تو دونوں ہیں مگر اول الذکر میں معنویت زیادہ ہے ۔
پہلو یہ ہے کہ غالب نے کہا ہے کہ "کوئی میرے دل سے پوچھے" یہ ایک ایسا جملہ ہے جو عمومی طور پر ناقابل بیان اظہار کے لیے بولا جاتا ہے ۔ اسی طرح کے اؤر بھی جملے استمعال ہوتے ہیں مثلاً "جو مجھ پر گزری وہ بس میں ہی جانتا ہوں" ، جس پر بیتتی ہے وہی جانتا ہے وغیرہ وغیرہ ۔ غالب کا یہ جملہ نہ صرف حسن بیان کے لیے ہے بلکہ اس میں شدت خلش کا ایک ہلکا سا اشارہ بھی موجود ہے ۔ اگر شدت خلش کا درجۂ غایت مقصود نہیں ہوتا تو "کوئی میرے دل سے پوچھے" یہ حصہ بے معنی ہوکر رہ جاتا۔
دوسرا پہلو یہ ہے کہ عام طور پر گمان کیا جاتا کہ عاشق اس چبھن سے تلذذ محسوس کررہا ہے ۔ ویسے اس کے انکار کا بھی کوئی جواز نہیں ہے مگر یہ بھی ایک زاویہ ہے کہ " کوئی میرے دل سے پوچھے" کے بعد " یہ خلش کہاں سے ہوتی" کہنے میں بھر پور شکوے کا انداز بھی ہے۔
اگر دھیان سے دیکھا تو اس شعر میں محاکات وغیرہ جو ہیں سو ہیں مگر بین المتون تلذذ ، شدت خلش اؤر شکوہ، تینوں کا پہلو نکل آتا ہے ۔ باالفاظ دیگر غالب نے ایک "تیر نیم کش" سے دو معنی اور تین جذبے کا شکار کیا ہے۔ غالب یوں ہی معنی آفرینی کا شاعر نہیں ہے۔
سیف ازہر
تشریح
یہ شعر غالب کی ان چند مشہور غزلوں میں سے ایک کا ہے جو زبان زد خاص وعام ہیں ۔ اگر کہا جائے تو یہ کہہ کر بات ختم کی جاسکتی ہے کہ یہ محاکات کا شعر ہے مگر اتنے سے حق ادا نہیں ہوگا ۔ نہ جانے کیوں غالب کے اس شعر میں دو محاکات ایک ساتھ جمع دکھائی دیتے ہیں ۔ شاید یہ گمان بھی غالب کی فنکاری سے پیدا ہؤا ہے ۔ "تیر نیم کش" کی ترکیب محض صوتی آہنگ کی صورت میں حسین نہیں ہے بلکہ معنوی سطح پر بھی بہت دلچسپ پہلو رکھتی ہے۔
دیکھا جائے تو بنیادی طور پر "تیر نیم کش" کے معنی "ادھ کھنچا تیر" ہے ۔ یہ تو لفظی معنی ہوا لیکن اگر یہی مجازی ہو تو "محبوب کی ادھ کھلی آنکھوں والی نظر یا آنکھ مارنا یا نظربچانا ، آنکھ دبانا وغیرہ یہ سب معنی ہوسکتے ہیں ۔ دونوں صورتوں میں اس شعر کے ایک سے زائد معنی اور پہلو نکلیں گے ۔ حقیقی معنی میں مفہوم یوں ہوگا کہ کوئی میرے دل سے پوچھے تمہاری آدھی کھینچ کے چلائی گئی تیر کو، یہ جو چبھن ہے اسی لیے ہے ، اگر کہیں پوری کھینچ کے چلائی گئی ہوتی تو ریت پر پانی کی طرح گزر جاتی خلش کا سوال ہی نہیں ہوتا ۔ مجازی معنی میں کہہ سکتے ہیں کہ کوئی میرے دل سے پوچھے کہ تمہاری نین کے باڑ سے یہ چبھن کہاں سے ہوتی اگر ایک خاص انداز سے نظر نہیں چلائی جاتی۔
یہ بظاہر دو معنی ہیں مگر دراصل دوسرا پہلے ہی معنی کا پرتو ہے ۔ فنکاری یہ ہے کہ یہ واضح نہیں ہے کہ "تیر نیم کش" وہ ہے جو سینے میں پیوست ہوا ہے یا وہ ہے جو پیوست سینے سے نکالا جا رہا ہے ۔ اگر شدت چبھن کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو "تیر نیم کش" وہ ہونا ہوناچاہیے جو پیوست سینے سے نکالا جا رہا ہے کیونکہ پیوست ہونے سے زیادہ خلش اسے نکالنے میں ہے ۔ اگر ایک بار کو مان لیا جائے کہ تیر نیم کش وہ ہے جو سینے میں پیوست ہو رہا ہے تو یہ معنی کے طور بہ ایں وجہ کمزور ہوگا کیونکہ اس میں خلش کی شدّت بہ نسبت دوسرے معنی کے کمزور ہے اؤر یہ کسی بھی عاشق کے لیے اچھا نہیں کہ محبوب ستم ایجاد کے کم ایذا پر اکتفا کرے، ایسی صورت میں عاشق کے قد پر سوالیہ نشان لگ جائے گا ، یوں بھی کم از کم غالب کا عاشق اتنا چھوٹا نہیں ہوسکتا ۔ بہر کیف معنی تو دونوں ہیں مگر اول الذکر میں معنویت زیادہ ہے ۔
پہلو یہ ہے کہ غالب نے کہا ہے کہ "کوئی میرے دل سے پوچھے" یہ ایک ایسا جملہ ہے جو عمومی طور پر ناقابل بیان اظہار کے لیے بولا جاتا ہے ۔ اسی طرح کے اؤر بھی جملے استمعال ہوتے ہیں مثلاً "جو مجھ پر گزری وہ بس میں ہی جانتا ہوں" ، جس پر بیتتی ہے وہی جانتا ہے وغیرہ وغیرہ ۔ غالب کا یہ جملہ نہ صرف حسن بیان کے لیے ہے بلکہ اس میں شدت خلش کا ایک ہلکا سا اشارہ بھی موجود ہے ۔ اگر شدت خلش کا درجۂ غایت مقصود نہیں ہوتا تو "کوئی میرے دل سے پوچھے" یہ حصہ بے معنی ہوکر رہ جاتا۔
دوسرا پہلو یہ ہے کہ عام طور پر گمان کیا جاتا کہ عاشق اس چبھن سے تلذذ محسوس کررہا ہے ۔ ویسے اس کے انکار کا بھی کوئی جواز نہیں ہے مگر یہ بھی ایک زاویہ ہے کہ " کوئی میرے دل سے پوچھے" کے بعد " یہ خلش کہاں سے ہوتی" کہنے میں بھر پور شکوے کا انداز بھی ہے۔
اگر دھیان سے دیکھا تو اس شعر میں محاکات وغیرہ جو ہیں سو ہیں مگر بین المتون تلذذ ، شدت خلش اؤر شکوہ، تینوں کا پہلو نکل آتا ہے ۔ باالفاظ دیگر غالب نے ایک "تیر نیم کش" سے دو معنی اور تین جذبے کا شکار کیا ہے۔ غالب یوں ہی معنی آفرینی کا شاعر نہیں ہے۔
سیف ازہر
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
بسکہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا
آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا
تشریح
اردو شاعری میں آدمی اور انسان کے فرق کو غالبؔ نے پہلی بار اجاگر کیا۔ اُن سے پہلے نظیراکبرآبادی نے ’’آدمی نامہ‘‘ نامہ میں آدمی کو کچھ اس طرح بیان کیا ہے:
یاں آدمی پہ جان کو وارے ہے آدمی
اور آدمی کو جان سے مارے ہے آدمی
چلا کے آدمی کو پکارے ہے آدمی
جو سُن کے دوڑتا ہے سو ہے وہ بھی آدمی
ان مصرعوں میں انسان کا کوئی تذکرہ نہیں۔ غالبؔ کے بعد مشہور شاعر حالیؔ نے کہا:
فرشتے سے بہتر ہے انسان بننا
مگر اس میں پڑتی ہے محنت زیادہ
اس شعر سے آدمی غائب ہے۔ غالبؔ نے آدمی اور انسان میں فرق ضرور کیا لیکن کسی بھی طرح آدمی کے لئے حقارت اور انسان کے لئے عقیدت کا اظہار نہیں کیا۔ انھوں نے پہلے ہی مصرع میں کہہ دیا کہ ہر کام آسان نہیں ہوتا اور دوسرے مصرع میں بتا دیا کہ انسان بننا تو آدمی کو ہی میسر نہیں۔ میسر ہونا کے معنی ہیں آسان ہونا۔ یہ دشوار ہونے کی ضد ہے۔ دو الفاظ جو معنی میں ایک دوسرے سے قریب ہوں یا پھر ایک دوسرے کے مخالف ہوں، ایک ہی شعر میں جمع کرنے سے شعر میں تناؤ اور حسن پیدا ہوتا ہے۔ غالبؔ کہتے ہیں کہ اگرچہ آدمی حیوانی سلسلے میں چوٹی پر ہے اور قدرت نے اسے بے پناہ صلاحیتوں سے نوازا ہے پھر بھی اس کے لیے انسان بننا کوئی آسان کام نہیں۔ دوسرے الفاظ میں اگر آدمی، انسان بننے کی منزل تک نہ پہنچ سکے تب بھی وہ قابل ملامت نہیں کیونکہ یہ کام ہے ہی اتنا مشکل۔ یہاں غالبؔ غلطیوں، کوتاہیوں اور خطاؤں کے پتلے آدمی کا دفاع کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ غالبؔ چیزوں کو جس بلند مقام سے دیکھتے ہیں وہاں ہر چھوٹا اور بڑا، اچھا اور برا سب ایک ڈرامے کے کردار بن جاتے ہیں۔ غالبؔ کسی چیز کو عام آدمی کی نگاہ سے دیکھتے ہی نہیں۔ ان کے یہاں زبردست حقیقت پسندی نظر آتی ہے۔ انہوں نے اپنی غیر جذباتی حقیقت پسندی کو جس طرح شاعری کے سانچے میں ڈھالا ہے انھیں کا کمال ہے۔
مرزا غالب
تشریح
اردو شاعری میں آدمی اور انسان کے فرق کو غالبؔ نے پہلی بار اجاگر کیا۔ اُن سے پہلے نظیراکبرآبادی نے ’’آدمی نامہ‘‘ نامہ میں آدمی کو کچھ اس طرح بیان کیا ہے:
یاں آدمی پہ جان کو وارے ہے آدمی
اور آدمی کو جان سے مارے ہے آدمی
چلا کے آدمی کو پکارے ہے آدمی
جو سُن کے دوڑتا ہے سو ہے وہ بھی آدمی
ان مصرعوں میں انسان کا کوئی تذکرہ نہیں۔ غالبؔ کے بعد مشہور شاعر حالیؔ نے کہا:
فرشتے سے بہتر ہے انسان بننا
مگر اس میں پڑتی ہے محنت زیادہ
اس شعر سے آدمی غائب ہے۔ غالبؔ نے آدمی اور انسان میں فرق ضرور کیا لیکن کسی بھی طرح آدمی کے لئے حقارت اور انسان کے لئے عقیدت کا اظہار نہیں کیا۔ انھوں نے پہلے ہی مصرع میں کہہ دیا کہ ہر کام آسان نہیں ہوتا اور دوسرے مصرع میں بتا دیا کہ انسان بننا تو آدمی کو ہی میسر نہیں۔ میسر ہونا کے معنی ہیں آسان ہونا۔ یہ دشوار ہونے کی ضد ہے۔ دو الفاظ جو معنی میں ایک دوسرے سے قریب ہوں یا پھر ایک دوسرے کے مخالف ہوں، ایک ہی شعر میں جمع کرنے سے شعر میں تناؤ اور حسن پیدا ہوتا ہے۔ غالبؔ کہتے ہیں کہ اگرچہ آدمی حیوانی سلسلے میں چوٹی پر ہے اور قدرت نے اسے بے پناہ صلاحیتوں سے نوازا ہے پھر بھی اس کے لیے انسان بننا کوئی آسان کام نہیں۔ دوسرے الفاظ میں اگر آدمی، انسان بننے کی منزل تک نہ پہنچ سکے تب بھی وہ قابل ملامت نہیں کیونکہ یہ کام ہے ہی اتنا مشکل۔ یہاں غالبؔ غلطیوں، کوتاہیوں اور خطاؤں کے پتلے آدمی کا دفاع کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ غالبؔ چیزوں کو جس بلند مقام سے دیکھتے ہیں وہاں ہر چھوٹا اور بڑا، اچھا اور برا سب ایک ڈرامے کے کردار بن جاتے ہیں۔ غالبؔ کسی چیز کو عام آدمی کی نگاہ سے دیکھتے ہی نہیں۔ ان کے یہاں زبردست حقیقت پسندی نظر آتی ہے۔ انہوں نے اپنی غیر جذباتی حقیقت پسندی کو جس طرح شاعری کے سانچے میں ڈھالا ہے انھیں کا کمال ہے۔
مرزا غالب
-
موضوع : انسان
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ