دنیا پر اشعار

دنیا کو ہم سب نے اپنی

اپنی آنکھ سے دیکھا اور برتا ہے اس عمل میں بہت کچھ ہمارا اپنا ہے جو کسی اور کا نہیں اور بہت کچھ ہم سے چھوٹ گیا ہے ۔ دنیا کو موضوع بنانے والے اس خوبصورت شعری انتخاب کو پڑھ کر آپ دنیا سے وابستہ ایسے اسرار سے واقف ہوں گے جن تک رسائی صرف تخلیقی اذہان ہی کا مقدر ہے ۔ ان اشعار کو پڑھ کر آپ دنیا کو ایک بڑے سیاق میں دیکھنے کے اہل ہوں گے ۔

یہاں لباس کی قیمت ہے آدمی کی نہیں

مجھے گلاس بڑے دے شراب کم کر دے

بشیر بدر

دنیا میں ہوں دنیا کا طلب گار نہیں ہوں

بازار سے گزرا ہوں خریدار نہیں ہوں

اکبر الہ آبادی

تم زمانے کی راہ سے آئے

ورنہ سیدھا تھا راستہ دل کا

باقی صدیقی

دیکھا ہے زندگی کو کچھ اتنے قریب سے

چہرے تمام لگنے لگے ہیں عجیب سے

ساحر لدھیانوی

دنیا کی محفلوں سے اکتا گیا ہوں یا رب

کیا لطف انجمن کا جب دل ہی بجھ گیا ہو

علامہ اقبال

دنیا جسے کہتے ہیں جادو کا کھلونا ہے

مل جائے تو مٹی ہے کھو جائے تو سونا ہے

ندا فاضلی

بازیچۂ اطفال ہے دنیا مرے آگے

ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے

مرزا غالب

چلے تو پاؤں کے نیچے کچل گئی کوئی شے

نشے کی جھونک میں دیکھا نہیں کہ دنیا ہے

شہاب جعفری

نہیں دنیا کو جب پروا ہماری

تو پھر دنیا کی پروا کیوں کریں ہم

جون ایلیا

بھول شاید بہت بڑی کر لی

دل نے دنیا سے دوستی کر لی

بشیر بدر

گھر کے باہر ڈھونڈھتا رہتا ہوں دنیا

گھر کے اندر دنیا داری رہتی ہے

راحت اندوری

غم دنیا بھی غم یار میں شامل کر لو

نشہ بڑھتا ہے شرابیں جو شرابوں میں ملیں

احمد فراز

جستجو جس کی تھی اس کو تو نہ پایا ہم نے

اس بہانے سے مگر دیکھ لی دنیا ہم نے

شہریار

دائم آباد رہے گی دنیا

ہم نہ ہوں گے کوئی ہم سا ہوگا

ناصر کاظمی

دنیا تو چاہتی ہے یونہی فاصلے رہیں

دنیا کے مشوروں پہ نہ جا اس گلی میں چل

حبیب جالب

دنیا نے تجربات و حوادث کی شکل میں

جو کچھ مجھے دیا ہے وہ لوٹا رہا ہوں میں

ساحر لدھیانوی

بہت مشکل ہے دنیا کا سنورنا

تری زلفوں کا پیچ و خم نہیں ہے

اسرار الحق مجاز

تھوڑی سی عقل لائے تھے ہم بھی مگر عدمؔ

دنیا کے حادثات نے دیوانہ کر دیا

عبد الحمید عدم

غم زمانہ نے مجبور کر دیا ورنہ

یہ آرزو تھی کہ بس تیری آرزو کرتے

اختر شیرانی

تمناؤں میں الجھایا گیا ہوں

کھلونے دے کے بہلایا گیا ہوں

شاد عظیم آبادی

جتنی بری کہی جاتی ہے اتنی بری نہیں ہے دنیا

بچوں کے اسکول میں شاید تم سے ملی نہیں ہے دنیا

ندا فاضلی

اک نظر کا فسانہ ہے دنیا

سو کہانی ہے اک کہانی سے

نشور واحدی

راس آنے لگی دنیا تو کہا دل نے کہ جا

اب تجھے درد کی دولت نہیں ملنے والی

افتخار عارف

ہاتھ دنیا کا بھی ہے دل کی خرابی میں بہت

پھر بھی اے دوست تری ایک نظر سے کم ہے

ادریس بابر

بھیڑ تنہائیوں کا میلا ہے

آدمی آدمی اکیلا ہے

صبا اکبرآبادی

لمحے اداس اداس فضائیں گھٹی گھٹی

دنیا اگر یہی ہے تو دنیا سے بچ کے چل

شکیل بدایونی

بہتر تو ہے یہی کہ نہ دنیا سے دل لگے

پر کیا کریں جو کام نہ بے دل لگی چلے

شیخ ابراہیم ذوقؔ

گاؤں کی آنکھ سے بستی کی نظر سے دیکھا

ایک ہی رنگ ہے دنیا کو جدھر سے دیکھا

اسعد بدایونی

ہم دنیا سے جب تنگ آیا کرتے ہیں

اپنے ساتھ اک شام منایا کرتے ہیں

تیمور حسن

دل کبھی خواب کے پیچھے کبھی دنیا کی طرف

ایک نے اجر دیا ایک نے اجرت نہیں دی

افتخار عارف

دنیا بس اس سے اور زیادہ نہیں ہے کچھ

کچھ روز ہیں گزارنے اور کچھ گزر گئے

حکیم محمد اجمل خاں شیدا

پھر سے خدا بنائے گا کوئی نیا جہاں

دنیا کو یوں مٹائے گی اکیسویں صدی

بشیر بدر

دیکھو دنیا ہے دل ہے

اپنی اپنی منزل ہے

محبوب خزاں

دنیا پسند آنے لگی دل کو اب بہت

سمجھو کہ اب یہ باغ بھی مرجھانے والا ہے

جمال احسانی

میں چاہتا ہوں یہیں سارے فیصلے ہو جائیں

کہ اس کے بعد یہ دنیا کہاں سے لاؤں گا میں

عرفان صدیقی

مذہب کی خرابی ہے نہ اخلاق کی پستی

دنیا کے مصائب کا سبب اور ہی کچھ ہے

فراق گورکھپوری

دنیا بہت خراب ہے جائے گزر نہیں

بستر اٹھاؤ رہنے کے قابل یہ گھر نہیں

لالہ مادھو رام جوہر

کیسے آ سکتی ہے ایسی دل نشیں دنیا کو موت

کون کہتا ہے کہ یہ سب کچھ فنا ہو جائے گا

احمد مشتاق

دنیا تو ہے دنیا کہ وہ دشمن ہے سدا کی

سو بار ترے عشق میں ہم خود سے لڑے ہیں

جلیل عالیؔ

امید و بیم کے محور سے ہٹ کے دیکھتے ہیں

ذرا سی دیر کو دنیا سے کٹ کے دیکھتے ہیں

افتخار عارف

دنیا مرے پڑوس میں آباد ہے مگر

میری دعا سلام نہیں اس ذلیل سے

احمد جاوید

معشوقوں سے امید وفا رکھتے ہو ناسخؔ

ناداں کوئی دنیا میں نہیں تم سے زیادہ

امام بخش ناسخ

جس کی ہوس کے واسطے دنیا ہوئی عزیز

واپس ہوئے تو اس کی محبت خفا ملی

ساقی فاروقی

اے غم دنیا تجھے کیا علم تیرے واسطے

کن بہانوں سے طبیعت راہ پر لائی گئی

ساحر لدھیانوی

دنیا بدل رہی ہے زمانہ کے ساتھ ساتھ

اب روز روز دیکھنے والا کہاں سے لائیں

افتخار عارف

اک درد محبت ہے کہ جاتا نہیں ورنہ

جس درد کی ڈھونڈے کوئی دنیا میں دوا ہے

مصحفی غلام ہمدانی

یہ کائنات مرے سامنے ہے مثل بساط

کہیں جنوں میں الٹ دوں نہ اس جہان کو میں

اختر عثمان

دنیا نے کس کا راہ فنا میں دیا ہے ساتھ

تم بھی چلے چلو یوں ہی جب تک چلی چلے

شیخ ابراہیم ذوقؔ

یہ دنیا غم تو دیتی ہے شریک غم نہیں ہوتی

کسی کے دور جانے سے محبت کم نہیں ہوتی

نامعلوم

دنیا ہے سنبھل کے دل لگانا

یاں لوگ عجب عجب ملیں گے

میر حسن

Jashn-e-Rekhta | 2-3-4 December 2022 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate, New Delhi

GET YOUR FREE PASS
بولیے